باب: نبی کریم ﷺکا فرمان ابو بردہ ؓ کے لیے کہ بکری کے ایک سال سے کم عمر کے بچے ہی کی قربانی کرلے لیکن تمہارے بعد اس کی قربانی کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: "Slaughter a young goat as a sacrifice, but it will not be sufficient for anybody else after you.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5557.
سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو بردہ ؓ نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”اس کے بدلے کوئی دوسری قربانی ذبح کرو۔“ انہوں نے عرض کی: میرے پاس صرف ایک یکسالہ بچہ ہے میرے خیال کے مطابق وہ دو دانتے جانور سے بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اس کی جگہ اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہوگا۔“ حاتم بن وردان نے محمد بن سیرین سے انہوں نے سیدنا انس ؓ اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے پاس ایک یکسالہ جوان بچہ ہے۔
تشریح:
(1) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں دو حضرات ہیں جنہیں خاص حالات کے پیش نظر ایک سالہ بکری کے بچے کو بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایک حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ہیں۔ اور دوسرے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں قربانی کے جانور تقسیم کرنے پر مقرر کیا گیا تھا۔ انہیں خلوص نیت اور جذبۂ اتباع کے پیش نظر خصوصی اجازت دی گئی لیکن ساتھ وضاحت کر دی گئی کہ دوسرے لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگرچہ دوسرے بعض حضرات کے متعلق بھی اس طرح کی صراحت ہے لیکن وہ روایات محل نظر ہیں۔ (2) بہرحال علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بکری کا بچہ خواہ کتنا ہی موٹا تازہ ہو بطور قربانی ذبح نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 20/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5345
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5557
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5557
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5557
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو بردہ ؓ نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”اس کے بدلے کوئی دوسری قربانی ذبح کرو۔“ انہوں نے عرض کی: میرے پاس صرف ایک یکسالہ بچہ ہے میرے خیال کے مطابق وہ دو دانتے جانور سے بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اس کی جگہ اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہوگا۔“ حاتم بن وردان نے محمد بن سیرین سے انہوں نے سیدنا انس ؓ اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے پاس ایک یکسالہ جوان بچہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں دو حضرات ہیں جنہیں خاص حالات کے پیش نظر ایک سالہ بکری کے بچے کو بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایک حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ہیں۔ اور دوسرے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں قربانی کے جانور تقسیم کرنے پر مقرر کیا گیا تھا۔ انہیں خلوص نیت اور جذبۂ اتباع کے پیش نظر خصوصی اجازت دی گئی لیکن ساتھ وضاحت کر دی گئی کہ دوسرے لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگرچہ دوسرے بعض حضرات کے متعلق بھی اس طرح کی صراحت ہے لیکن وہ روایات محل نظر ہیں۔ (2) بہرحال علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بکری کا بچہ خواہ کتنا ہی موٹا تازہ ہو بطور قربانی ذبح نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 20/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ نے، ان سے ابو جحیفہ نے اور ان سے حضرت براءؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابو بردہ ؓ نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس کے بدلے میں دوسری قربانی کلو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کے بچے کے سوا اور کوئی جانور نہیں۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ حضرت ابو بردہ ؓ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ایک سال کی بکری سے بھی عمدہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر اسی کی اس کے بدلے میں قربانی کر دو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے کافی نہیں ہوگی اور حاتم بن وردان نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہ نبی ﷺ سے آخر حدیث تک (اس روایت میں یہ لفظ ہیں) کہ ”ایک سال سے کم عمر کی بچی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': Abu Burda slaughtered (the sacrifice) before the ('Id) prayer whereupon the Prophet (ﷺ) said to him, "Slaughter another sacrifice instead of that." Abu Burda said, "I have nothing except a Jadha'a." (Shu'ba said: Perhaps Abu Burda also said that Jadha'a was better than an old sheep in his opinion.) The Prophet (ﷺ) said, "(Never mind), slaughter it to make up for the other one, but it will not be sufficient for anyone else after you."