Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: Slaughtering the sacrifices on behalf of others)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ایک صاحب نے حضرت ابن عمر ؓ کی ان کے اونٹ کی قربانی میں مدد کی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے اپنی لڑکیوں سے کہا کہ اپنی قربانی وہ اپنے ہاتھ ہی سے ذبح کریں ۔اگرذبح نہ کرسکیں تو کم از کم وہاں حاضر رہ کر اس جانورکو ہاتھ لگائیں اور دعائے مسنونہ پڑھیں۔
5559.
سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مقام سرف میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ فرمایا: کیا بات ہے؟ ”کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو اللہ تعالٰی نے بنات آدم کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ اس بنا پر تو دوسرے حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج ادا کر، صرف بیت اللہ کا طواف نہ کر۔“ رسول اللہ ﷺ نے بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی تھی۔
تشریح:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ان ازواج کی طرف سے جنہوں نے عمرہ کیا تھا مشترکہ طور پر ایک گائے ذبح کی تھی۔ (سنن ابن ماجة، الأضاحي، حدیث: 3133) (2) اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی دوسرا آدمی قربانی کا جانور ذبح کر سکتا ہے جبکہ قربانی کرنے والا خود اچھی طرح ذبح نہ کر سکتا ہو، بہرحال اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی دوسرا ذبح کرے یا ذبح کرنے میں قربانی کرنے والے کا ہاتھ بٹائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5347
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5559
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5559
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5559
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یہ عنوان پہلے عنوان کے برعکس ہے۔ بہرحال ذبح کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ آدمی خود ہی اس کام کو سر انجام دے، کسی دوسرے سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔ عورت اگر اچھی طرح ذبح کر سکتی ہو تو اس کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ اس سلسلے میں کسی دوسرے کو متعین کر سکتی ہے، بہرحال ذبح کے وقت تعاون لینے میں کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کو زمین پر لٹایا تو اپنے پاس کھڑے ایک انصاری سے کہا: "قربانی کے سلسلے میں میرا تعاون کریں" تو اس نے آپ کا ہاتھ بٹایا۔ (مسند احمد: 5/373)
ایک صاحب نے حضرت ابن عمر ؓ کی ان کے اونٹ کی قربانی میں مدد کی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے اپنی لڑکیوں سے کہا کہ اپنی قربانی وہ اپنے ہاتھ ہی سے ذبح کریں ۔اگرذبح نہ کرسکیں تو کم از کم وہاں حاضر رہ کر اس جانورکو ہاتھ لگائیں اور دعائے مسنونہ پڑھیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مقام سرف میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ فرمایا: کیا بات ہے؟ ”کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو اللہ تعالٰی نے بنات آدم کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ اس بنا پر تو دوسرے حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج ادا کر، صرف بیت اللہ کا طواف نہ کر۔“ رسول اللہ ﷺ نے بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ان ازواج کی طرف سے جنہوں نے عمرہ کیا تھا مشترکہ طور پر ایک گائے ذبح کی تھی۔ (سنن ابن ماجة، الأضاحي، حدیث: 3133) (2) اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی دوسرا آدمی قربانی کا جانور ذبح کر سکتا ہے جبکہ قربانی کرنے والا خود اچھی طرح ذبح نہ کر سکتا ہو، بہرحال اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی دوسرا ذبح کرے یا ذبح کرنے میں قربانی کرنے والے کا ہاتھ بٹائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ایک آدمی نے اونٹ ذبح کرنے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا تعاون کیا۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے اپنی بیٹیوں سے کہا کہ وہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کریں
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ مقام سرف میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے، کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آ پ نے فرمایا یہ تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ اس لیے حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج انجام دے صرف کعبہ کا طواب نہ کرو اور آنحضرت ﷺ نے اپنے بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) entered upon me at Sarif while I was weeping (because I was afraid that I would not be able to perform the ,Hajj). He said, "What is wrong with you? Have you got your period?" I replied, "Yes." He said, "This is a matter Allah has decreed for all the daughters of Adam, so perform the ceremonies of the Hajj as the pilgrims do, but do not perform the Tawaf around the Ka’bah." Allah's Apostle (ﷺ) slaughtered some cows as sacrifices on behalf of his wives.