باب: کسی میٹھی چیز کا شربت اور شہد کا شربت بنانا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: The drinking of sweet edible things and honey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور زہری نے کہا اگر پیاس کی شدت ہو اور پانی نہ ملے تو بھی انسا ن کا پیشاب پینا جائز نہیں کیونکہ وہ نجاست ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور حضرت ابن مسعود ؓ نے نشہ لانے والی چیزوں کے بارے میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی ہے ۔تشریح : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص ہیں۔ اسلام لانے والوں میں چھٹا نمبر ان کا ہے۔ بعمر کچھ اوپر ساٹھ سال سنہ32ھ مدینہ میں وفات پائی اور بقیع غرقد میں دفن ہوئے۔
5614.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کو شیرینی اور شہد دونوں چیزیں بہت مرغوب تھیں۔
تشریح:
(1) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ کو میٹھی چیز کی بہت خواہش تھی، اگر نہ ملتی تو بے چین ہو جاتے یا خصوصی طور پر اس کا اہتمام کراتے جیسا کہ مال دار لوگوں کا رویہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی میٹھی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی جاتی تو بڑے شوق سے اسے تناول فرماتے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لذیذ اور عمدہ چیز کا اہتمام کرنا معیوب امر نہیں ہے اور یہ زہد و تقویٰ کے منافی نہیں، خاص کر جب اتفاقیہ طور پر مل جائے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 101/10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد کھاتے بھی تھے اور پانی میں ملا کر بطور مشروب بھی استعمال کرتے تھے۔ انسان حسب ضرورت اور حسب خواہش اسے استعمال کر سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5402
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5614
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5614
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5614
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
امام زہری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میٹھے مشروب اور شہد وغیرہ طیبات سے ہیں اور ان کا استعمال جائز اور حلال ہے جبکہ پیشاب نجس ہے، بوقت ضرورت بھی اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔ اسی طرح سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے نشہ آور چیز کو بطور دوا استعمال کرنے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی ہے۔ شفا حلال اور طیب میں ہے جیسا کہ شہد کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔" (النمل: 27/69)
اور زہری نے کہا اگر پیاس کی شدت ہو اور پانی نہ ملے تو بھی انسا ن کا پیشاب پینا جائز نہیں کیونکہ وہ نجاست ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور حضرت ابن مسعود ؓ نے نشہ لانے والی چیزوں کے بارے میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی ہے ۔تشریح : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص ہیں۔ اسلام لانے والوں میں چھٹا نمبر ان کا ہے۔ بعمر کچھ اوپر ساٹھ سال سنہ32ھ مدینہ میں وفات پائی اور بقیع غرقد میں دفن ہوئے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کو شیرینی اور شہد دونوں چیزیں بہت مرغوب تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ کو میٹھی چیز کی بہت خواہش تھی، اگر نہ ملتی تو بے چین ہو جاتے یا خصوصی طور پر اس کا اہتمام کراتے جیسا کہ مال دار لوگوں کا رویہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی میٹھی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی جاتی تو بڑے شوق سے اسے تناول فرماتے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لذیذ اور عمدہ چیز کا اہتمام کرنا معیوب امر نہیں ہے اور یہ زہد و تقویٰ کے منافی نہیں، خاص کر جب اتفاقیہ طور پر مل جائے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 101/10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد کھاتے بھی تھے اور پانی میں ملا کر بطور مشروب بھی استعمال کرتے تھے۔ انسان حسب ضرورت اور حسب خواہش اسے استعمال کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے کہا: اگر پیاس کی شدت ہو اور پانی دستیاب نہ ہو تو بھی انسان کا پیشاب پینا جائز نہیں کیونکہ وہ نجس ہے، اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: ”تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔“حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے نشہ آور چیز کے متعلق فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تمہارے لیے شفا حرام چیزوں میں نہیں رکھی
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ شیرینی اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
و فیه جواز أکل لذیذ الأطعمة و الطیبات من الرزق و إن ذالك لا ینافي الزھد و المراقبة لا سیما إن حصل اتفاقاً(فتح الباري)یعنی اس حدیث میں جواز ہے لذیذ اور طیبات رزق کھانے کے لیے اور یہ زہد اور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے خاص کر جبکہ اتفاقی طور پر حاصل ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) used to like sweet edible things (syrup, etc.) and honey.