باب: اگر آدمی داہنی طرف والے سے اجازت لے کر پہلے بائیں طرف والے کو دے جو عمر میں بڑا ہو
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: The permission of the one on right to give the drink to an elder person first)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5620.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب لایا گیا آپ نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جبکہ بائیں جانب بزرگ صحابہ کرام ؓ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ”کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں بچا ہوا شربت ان شیوخ کو دے دوں؟“ بچے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ کے پس ماندہ سے ملنے والے حصے کے معاملے میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا۔ راوی نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے زور سے اس کے ہاتھ میں پیالہ دے دیا۔
تشریح:
(1) حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ بادل نخواستہ لڑکے کے ہاتھ میں دیا کیونکہ آپ کی خواہش تھی کہ وہ بڑوں کے لیے ایثار کرتا، مگر اس نے ایسا نہ کیا تو آپ نے بھی حق و انصاف کا خون کرنا پسند نہ فرمایا۔ ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ دائیں جانب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بائیں جانب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پینے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پیا۔ (سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3426) (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو بائیں جانب پر ترجیح حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تبرک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دینے کی خواہش ظاہر کی۔ اس میں بڑی عمروں کا احترام ملحوظ تھا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب عزت افزائی کا کوئی موقع حاصل ہو رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن اس کے حصول کے لیے ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسروں کی تحقیر ہوتی ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5408
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5620
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5620
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5620
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب لایا گیا آپ نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جبکہ بائیں جانب بزرگ صحابہ کرام ؓ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ”کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں بچا ہوا شربت ان شیوخ کو دے دوں؟“ بچے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ کے پس ماندہ سے ملنے والے حصے کے معاملے میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا۔ راوی نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے زور سے اس کے ہاتھ میں پیالہ دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ بادل نخواستہ لڑکے کے ہاتھ میں دیا کیونکہ آپ کی خواہش تھی کہ وہ بڑوں کے لیے ایثار کرتا، مگر اس نے ایسا نہ کیا تو آپ نے بھی حق و انصاف کا خون کرنا پسند نہ فرمایا۔ ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ دائیں جانب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بائیں جانب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پینے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پیا۔ (سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3426) (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو بائیں جانب پر ترجیح حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تبرک حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دینے کی خواہش ظاہر کی۔ اس میں بڑی عمروں کا احترام ملحوظ تھا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب عزت افزائی کا کوئی موقع حاصل ہو رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن اس کے حصول کے لیے ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسروں کی تحقیر ہوتی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابو حازم بن دینار نے اور ان سے حضرت سہل بن سعد ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شربت لایا گیا آنحضرت ﷺ نے اس میں سے پیا، آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور بائیں طرف بوڑھے لوگ (حضرت خالد بن ولید ؓ جیسے بیٹھے ہوئے) تھے۔ آنحضرت ﷺ نے بچے سے کہا کیا تم مجھے اجازت دو گے کہ میں ان (شیوخ) کو (پہلے) دے دوں۔ لڑکے نے کہا اللہ کی قسم یا رسول اللہ! آپ کے جھوٹے میں سے ملنے والے اپنے حصہ کے معاملہ میں کسی پر ایثار نہیں کروں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر آنحضرت ﷺ نے لڑکے کے ہاتھ میں پیالہ دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
لفظ ''تلة'' بتلاتا ہے کہ آپ نے وہ پیالہ بادل ناخواستہ اس لڑکے کے ہاتھ دیا، آپ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بڑوں کے لیے ایثار کرے مگر اس نے ایسا نہیں کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اس کے حوالے کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) was offered something to drink. He drank of it while on his right was a boy and on his left were some elderly people. He said to the boy, "May I give these (elderly) people first?" The boy said, "By Allah, O Allah's Apostle (ﷺ) ! I will not give up my share from you to somebody else." On that Allah's Apostle (ﷺ) placed the cup in the hand of that boy.