مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5719.
حضرت حماد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایوب کے سامنے ابوقلابہ کی لکھی ہوئی احادیث پڑھی گئیں ان میں وہ احادیث بھی تھیں جنہیں بیان کیا تھا اور وہ بھی تھیں جوان کے سامنے پڑھ کر سنائی گئی تھیں۔ ان تحریر شدہ احادیث میں حضرت انس بن نضر ؓ سے مروى یہ حدیث بھی تھی حضرت انس ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ انصار کے بعض گھرانوں کو زہریلے جانوروں کے کاٹنے اور کان کی تکلیف میں دم کرنے کی اجازت دی تھی حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ پسلی کے درد کی وجہ سے مجھے داغ دیا گیا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ حیات تھے اس وقت حضرت ابو طلحہ، انس، بن نضر اور زید بن ثابت ؓ بھی حاضر تھے اور مجھے حضرت ابو طلحہ ؓ نے داغ دیا تھا۔
تشریح:
(1) قبل ازیں پسلیوں کے درد کا علاج بذریعہ عود ہندی بیان ہوا تھا کہ اسے منہ کی ایک جانب ڈالا جائے اور اس حدیث میں ایک دوسرا علاج بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اس بیماری کی وجہ سے داغ دیا گیا تھا، جبکہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابۂ کرام بھی موجود تھے۔ داغنے کا عمل حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ (2) اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علاج پسند نہ تھا، تاہم بامر مجبوری اسے اختیار کیا گیا۔ بہرحال مجبوری کے وقت اس کے ذریعے سے علاج کرنا مباح اور جائز ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا علاج ممکن ہو تو پھر اس طریقۂ علاج سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5503
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5719
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5719
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5719
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
پسلیوں اور سینے میں غلیظ مادے اور گندے بخارات رک جانے سے ان میں درد ہونے لگتا ہے۔ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔ اس کا علاج عود ہندی سے کیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت حماد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایوب کے سامنے ابوقلابہ کی لکھی ہوئی احادیث پڑھی گئیں ان میں وہ احادیث بھی تھیں جنہیں بیان کیا تھا اور وہ بھی تھیں جوان کے سامنے پڑھ کر سنائی گئی تھیں۔ ان تحریر شدہ احادیث میں حضرت انس بن نضر ؓ سے مروى یہ حدیث بھی تھی حضرت انس ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ انصار کے بعض گھرانوں کو زہریلے جانوروں کے کاٹنے اور کان کی تکلیف میں دم کرنے کی اجازت دی تھی حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ پسلی کے درد کی وجہ سے مجھے داغ دیا گیا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ حیات تھے اس وقت حضرت ابو طلحہ، انس، بن نضر اور زید بن ثابت ؓ بھی حاضر تھے اور مجھے حضرت ابو طلحہ ؓ نے داغ دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قبل ازیں پسلیوں کے درد کا علاج بذریعہ عود ہندی بیان ہوا تھا کہ اسے منہ کی ایک جانب ڈالا جائے اور اس حدیث میں ایک دوسرا علاج بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اس بیماری کی وجہ سے داغ دیا گیا تھا، جبکہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابۂ کرام بھی موجود تھے۔ داغنے کا عمل حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ (2) اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علاج پسند نہ تھا، تاہم بامر مجبوری اسے اختیار کیا گیا۔ بہرحال مجبوری کے وقت اس کے ذریعے سے علاج کرنا مباح اور جائز ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا علاج ممکن ہو تو پھر اس طریقۂ علاج سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عارم نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا کہ ایوب سختیانی کے سامنے ابو قلابہ کی لکھی ہوئی احادیث پڑھی گئیں ان میں وہ احادیث بھی تھیں جنہیں (ایوب نے ابو قلابہ سے) بیان کیا تھا اور وہ بھی تھیں جو ان کے سامنے پڑھ کر سنائی گئی تھیں۔ ان لکھی ہوئی احادیث کے ذخیرہ میں انس ؓ کی یہ حدیث بھی تھی کہ ابوطلحہ اور انس بن نضر نے انس ؓ کو داغ لگا کر ان کا علاج کیا تھا یا ابو طلحہ ؓ نے ان کو خود اپنے ہاتھ سے داغا تھا۔ اور عباد بن منصور نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابو قلابہ نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ انصار کے بعض گھرانوں کو زہریلے جانوروں کے کاٹنے اور کان کی تکلیف میں جھاڑنے کی اجازت دی تھی تو انس ؓ نے بیان کیا کہ ذات الجنب کی بیماری میں مجھے داغا گیا تھا رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اور اس وقت ابو طلحہ، انس بن نضر اور زید بن ثابت ؓ موجود تھے اور ابو طلحہ ؓ نے مجھے داغا تھا۔
حدیث حاشیہ:
داغنا اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں ہے مگر بحالت مجبوری ایسے مواقع پر حد جواز کی اجازت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) allowed one of the Ansar families to treat persons who have taken poison and also who are suffering from ear ailment with Ruqya. Anas added: I got myself branded cauterized) for pleurisy, when Allah's Apostle (ﷺ) was still alive. Abu Talha, Anas bin An-Nadr and Zaid bin Thabit witnessed that, and it was Abu Talha who branded (cauterized) me.