Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Fever is from the heat of Hell)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5724.
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ان جے پاس جب کوئی بخار میں مبتلا عورت لائی جاتی تو وہ اس کے لیے دعا کرتیں اور پانی لے کر اس کے گریبان میں ڈالتیں اور کہتیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم بخار کو پانی سے ٹھنڈا کریں۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بیان کی ہے، تاکہ پانی کے استعمال کی کیفیت بیان کی جائے کہ بخار میں مبتلا آدمی کے گریبان میں پانی ڈال دیا جائے تاکہ اس سے جسم کو ٹھنڈک پہنچے۔ (2) دراصل بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنے میں علاقے، موسم اور مریض کے حالات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ صفراوی بخار میں تو واقعی ٹھنڈے پانی والا نسخہ کیمیا اثر ہے۔ بہرحال نہانا اور ہاتھ پاؤں دھونا بھی مفید ہے، چنانچہ جدید طب نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5506
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5724
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5724
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5724
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
بخار سے جہنم کی یاد آتی ہے جس طرح دنیا کی خوشیاں اور اس کی راحتیں جنت سے ایک طرح کا تعلق رکھتی ہیں اسی طرح بخار وغیرہ کا جہنم سے ایک تعلق ہے۔ ممکن ہے کہ بخار کا تعلق جہنم کی آگ سے حقیقی ہو جس کی حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی۔ واللہ اعلم
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ان جے پاس جب کوئی بخار میں مبتلا عورت لائی جاتی تو وہ اس کے لیے دعا کرتیں اور پانی لے کر اس کے گریبان میں ڈالتیں اور کہتیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم بخار کو پانی سے ٹھنڈا کریں۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بیان کی ہے، تاکہ پانی کے استعمال کی کیفیت بیان کی جائے کہ بخار میں مبتلا آدمی کے گریبان میں پانی ڈال دیا جائے تاکہ اس سے جسم کو ٹھنڈک پہنچے۔ (2) دراصل بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنے میں علاقے، موسم اور مریض کے حالات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ صفراوی بخار میں تو واقعی ٹھنڈے پانی والا نسخہ کیمیا اثر ہے۔ بہرحال نہانا اور ہاتھ پاؤں دھونا بھی مفید ہے، چنانچہ جدید طب نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے فاطمہ بنت منذر نے بیان کیا کہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق ؓ کے ہاں جب کوئی بخار میں مبتلا عورت لائی جاتی تھی تو اس کے لیے دعا کرتیں اور اس کے گریبان میں پانی ڈالتیں وہ بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیاتھا کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کریں۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کرو مراد وہ بخار ہے جو صفراءکے جوش سے ہو اس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ نہانا یا ہاتھ پاؤں کا دھونا بھی مفید ہے۔ اسے آج کی ڈاکٹری نے بھی تسلیم کیا ہے شدید بخار میں برف کا استعمال بھی اسی قبیل سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Fatima bint Al-Mundhir (RA) : Whenever a lady suffering from fever was brought to Asma' bint Abu Bakr, she used to invoke Allah for her and then sprinkle some water on her body, at the chest and say, "Allah's Apostle (ﷺ) used to order us to abate fever with water."