Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of the Fajr (early morning) prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
574.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازوں کو پابندی سے ادا کر دے گا، وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ اس روایت کو ابن رجاء نے بھی بواسطہ ہمام بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازوں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں کیونکہ حدیث جریر ؓ میں قبل از طلوع آفتاب اور قبل از غروب آفتاب کی نمازوں کی پابندی کا ذکر ہے، پھر صحیح مسلم میں عصر اور فجر کی صراحت بھی ہے۔ یہ نمازیں دن کے دونوں طرف واقع ہیں۔ ان کے اوقات میں ہوا بہت خوش گوار ہوتی ہے اور گرمی کا جوش بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ان دونوں وقتوں میں ایک وقت آرام اور سکون کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت کثرت مشاغل کا، اس لیے ان نمازوں کی پابندی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے کہ جو ان اوقات میں بھی پابندی کرے گا، وہ دوسرے اوقات میں زیادہ آسانی سے اپنے فرائض بجالائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص طلوع شمس اور غروب شمس سے پہلے نمازوں کی پابندی کرے گا، وہ کبھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1436(634)) بہر حال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے نماز فجر کی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 71/2) (2) امام بخاری ؒ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی حدیث کے متعلق دو شواہد بیان فرماتے ہیں:٭پہلی تعلیق ابن رجاء کی ہے جو امام بخاری کے شیخ ہیں۔ اسے محمد بن یحییٰ ذہلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔٭دوسرا طریق اسحاق بن منصور کا ہے جو حبان بن ہلال کے شاگرد ہیں۔ (فتح الباري: 71/2) (3) حضرت فضالہ لیثی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ آپ نے مجھے دیگر تعلیمات کے ساتھ پانچوں نمازوں کو بروقت پابندی سے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ ان اوقات میں مجھے بہت مصروفیت ہوتی ہے، لہٰذاآپ مجھے ایسی جامع باتیں بتائیں جن پر عمل پیرا ہونا کافی ہوجائے تو آپ نے فرمایا:"عصرین"کی پابندی کریں۔’’چونکہ یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل نہیں تھا، اس لیے میں نے عصرین کا مفہوم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس سے فجر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں۔‘‘ (مسند أحمد:344/4) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فجر اور عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کی ضرورت ہی نہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ اسے اس انداز سے پابند بنانا چاہتے تھے کہ دفعتًا بار خاطر بھی نہ ہو اور کام بھی ہوجائے، اس لیے آپ نے راحت و آرام اورکثرت مشاغل کے وقت نمازوں کی اہمیت بیان فرمائی۔ جب کوئی ان اوقات میں نمازوں کی پابندی کرے گا تو دیگر اوقات میں پابندی کرنا اس کےلیے آسان ہو گا۔ الغرض "بردین" جنھیں دوسری روایت میں"عصرین" کہاگیا ہے، کی پابندی کو دخول جنت میں اس طرح دخل ہےکہ ان اوقات کی پابندی سے دوسرے اوقات میں پابندی آسان ہوجاتی ہے، اس لیے ان کی اہمیت کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
570
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
574
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
574
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
574
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازوں کو پابندی سے ادا کر دے گا، وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ اس روایت کو ابن رجاء نے بھی بواسطہ ہمام بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازوں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں کیونکہ حدیث جریر ؓ میں قبل از طلوع آفتاب اور قبل از غروب آفتاب کی نمازوں کی پابندی کا ذکر ہے، پھر صحیح مسلم میں عصر اور فجر کی صراحت بھی ہے۔ یہ نمازیں دن کے دونوں طرف واقع ہیں۔ ان کے اوقات میں ہوا بہت خوش گوار ہوتی ہے اور گرمی کا جوش بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ان دونوں وقتوں میں ایک وقت آرام اور سکون کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت کثرت مشاغل کا، اس لیے ان نمازوں کی پابندی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے کہ جو ان اوقات میں بھی پابندی کرے گا، وہ دوسرے اوقات میں زیادہ آسانی سے اپنے فرائض بجالائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص طلوع شمس اور غروب شمس سے پہلے نمازوں کی پابندی کرے گا، وہ کبھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1436(634)) بہر حال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے نماز فجر کی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 71/2) (2) امام بخاری ؒ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی حدیث کے متعلق دو شواہد بیان فرماتے ہیں:٭پہلی تعلیق ابن رجاء کی ہے جو امام بخاری کے شیخ ہیں۔ اسے محمد بن یحییٰ ذہلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔٭دوسرا طریق اسحاق بن منصور کا ہے جو حبان بن ہلال کے شاگرد ہیں۔ (فتح الباري: 71/2) (3) حضرت فضالہ لیثی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ آپ نے مجھے دیگر تعلیمات کے ساتھ پانچوں نمازوں کو بروقت پابندی سے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ ان اوقات میں مجھے بہت مصروفیت ہوتی ہے، لہٰذاآپ مجھے ایسی جامع باتیں بتائیں جن پر عمل پیرا ہونا کافی ہوجائے تو آپ نے فرمایا:"عصرین"کی پابندی کریں۔’’چونکہ یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل نہیں تھا، اس لیے میں نے عصرین کا مفہوم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس سے فجر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں۔‘‘ (مسند أحمد:344/4) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فجر اور عصر کے علاوہ دیگر نمازوں کی ضرورت ہی نہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ اسے اس انداز سے پابند بنانا چاہتے تھے کہ دفعتًا بار خاطر بھی نہ ہو اور کام بھی ہوجائے، اس لیے آپ نے راحت و آرام اورکثرت مشاغل کے وقت نمازوں کی اہمیت بیان فرمائی۔ جب کوئی ان اوقات میں نمازوں کی پابندی کرے گا تو دیگر اوقات میں پابندی کرنا اس کےلیے آسان ہو گا۔ الغرض "بردین" جنھیں دوسری روایت میں"عصرین" کہاگیا ہے، کی پابندی کو دخول جنت میں اس طرح دخل ہےکہ ان اوقات کی پابندی سے دوسرے اوقات میں پابندی آسان ہوجاتی ہے، اس لیے ان کی اہمیت کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری ؓ سے، انھوں نے اپنے باپ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں (وقت پر) پڑھیں (فجر اور عصر) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ابن رجاء نے کہا کہ ہم سے ہمام نے ابوجمرہ سے بیان کیا کہ ابوبکر بن عبداللہ بن قیس ؓ نے انھیں اس حدیث کی خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ ان ہردو نمازوں کا وقت پر پابندی کے ساتھ ادا کیا۔ چونکہ ان اوقات میں اکثر غفلت ہوسکتی ہے، اس لیے اس خصوصیت سے ان کا ذکر کیا، عصر کا وقت کاروبار میں انتہائی مشغولیت اورفجر کا وقت میٹھی نیند سونے کا وقت ہے، مگر اللہ والے ان کی خاص طور پر پابندی کرتے ہیں۔ عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری ؓ کا نام ہے۔ اس تعلیق سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ ابوبکربن ابی موسیٰ جو اگلی روایت میں مذکور ہیں وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے بیٹے ہیں۔ اس تعلیق کو ذہلی نے موصولاً روایت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
My father said, "Allah's Messenger (ﷺ) said, 'Whoever prays the two cool prayers (Asr and Fajr) will go to Paradise."