مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5762.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! وہ کبھی ہمیں ایسی باتوں کی خبر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ صحیح بات جن کسی (فرشتے) سے سن لیتا ہے اور اپنے دوست کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے پھر یہ لوگ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔“ علی بن مدینی نے کہا کہ عبدالرزاق پہلے ”الکلمۃ من الحق“ والا جملہ مرسل طور پر بیان کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے اسے متصل سند سے بیان کیا
تشریح:
پہلے شیاطین آسمان پر جا کر فرشتوں کی بات اڑا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کہانت کی یہ قسم موقوف ہو گئی۔ اب آسمان پر اتنا شدید پہرہ ہے کہ شیطان وہاں پھٹکنے نہیں پاتے۔ اب ایسے کاہن بھی موجود نہیں جو شیطان سے اس قسم کا تعلق رکھتے ہوں کہ وہ انہیں غیب کی خبریں بتائیں۔ اس دور کے نجومی اور کاہن محض اٹکل اور اندازے سے بات کرتے ہیں۔ اگر ان کی کوئی بات اتفاق سے صحیح نکل آئے تو اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے بلکہ اس کی پرزور تردید کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس ان کے جال میں نہ پھنسیں اور غلط عقائد کا شکار نہ ہوں، ان کے علم کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ یہ لوگ گندے اور پلید رہنے کی وجہ سے جہالت میں غرق رہتے ہیں۔ واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5544
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5762
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5762
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5762
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
کہانت، علم غیب کا دعویٰ کرنا ہے۔ کہانت اختیار کرنے والے کو کاہن کہا جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں سلسلۂ نبوت منقطع تھا، اس لیے کہانت کا پیشہ پورے زوروں پر تھا۔ اسلام آیا تو اس کا خاتمہ ہو گیا۔ کاہن دعویٰ کرتے تھے کہ جن ان کے تابع ہیں اور وہ غیب کی خبریں ان کو بتاتے ہیں۔ اس قسم کے مکار اور فریبی لوگ آج بھی موجود ہیں جو "استخارہ سنٹر" کھولے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید ان الفاظ میں فرمائی ہے: "جو شخص کسی کے پاس غیب کی خبر معلوم کرنے کے لیے گیا، پھر اس کی تصدیق کی تو اس نے ان تعلیمات کا انکار کر دیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہیں۔" (سنن ابی داود، الطب، حدیث: 3904)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔“ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! وہ کبھی ہمیں ایسی باتوں کی خبر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ صحیح بات جن کسی (فرشتے) سے سن لیتا ہے اور اپنے دوست کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے پھر یہ لوگ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔“ علی بن مدینی نے کہا کہ عبدالرزاق پہلے ”الکلمۃ من الحق“ والا جملہ مرسل طور پر بیان کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے اسے متصل سند سے بیان کیا
حدیث حاشیہ:
پہلے شیاطین آسمان پر جا کر فرشتوں کی بات اڑا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کہانت کی یہ قسم موقوف ہو گئی۔ اب آسمان پر اتنا شدید پہرہ ہے کہ شیطان وہاں پھٹکنے نہیں پاتے۔ اب ایسے کاہن بھی موجود نہیں جو شیطان سے اس قسم کا تعلق رکھتے ہوں کہ وہ انہیں غیب کی خبریں بتائیں۔ اس دور کے نجومی اور کاہن محض اٹکل اور اندازے سے بات کرتے ہیں۔ اگر ان کی کوئی بات اتفاق سے صحیح نکل آئے تو اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے بلکہ اس کی پرزور تردید کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس ان کے جال میں نہ پھنسیں اور غلط عقائد کا شکار نہ ہوں، ان کے علم کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ یہ لوگ گندے اور پلید رہنے کی وجہ سے جہالت میں غرق رہتے ہیں۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں یحییٰ بن عروہ بن زبیر نے، انہیں عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے متعلق پوچھا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! بعض اوقات وہ ہمیں ایسی چیزیں بھی بتاتے ہیں جو صحیح ہو جاتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کلمہ حق ہوتا ہے۔ اسے کاہن کسی جنی سے سن لیتا ہے وہ جنی اپنے دوست کاہن کے کان مےں ڈال جاتا ہے اورپھر یہ کاہن اس کے ساتھ سوجھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔ علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیاکہ عبدالرزاق اس کلمہ تلک الکلمۃ من الحق کو مرسلاً روایت کرتے تھے پھر انہوں نے کہا مجھ کو یہ خبر پہنچی کہ عبدالرزاق اس کے بعد اس کو مسنداً حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا یہ کہانت یعنی شیطان جو آسمان پر جاکر فرشتوں کی بات اڑا لیتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے موقوف ہو گئی اب آسمان پر اتنا شدید پہرہ ہے کہ شیطان وہاں پھٹکے نہیں پاتے نہ اب ویسے کاہن موجودہیں جو شیطان سے تعلق رکھتے تھے ہمارے زمانے کے کاہن محض اٹکل پچو بات کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Some people asked Allah's Apostle (ﷺ) about the fore-tellers He said. ' They are nothing" They said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Sometimes they tell us of a thing which turns out to be true." Allah's Apostle (ﷺ) said, "A Jinn snatches that true word and pours it Into the ear of his friend (the fore-teller) (as one puts something into a bottle) The foreteller then mixes with that word one hundred lies."