مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5766.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا : کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے جو قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھتا ہے پہلے نے کہا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں جو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا وہ کہاں رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا: ”ذروان نامی کنویں میں رکھا ہے۔“ نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کوساتھ لے کر اس کنویں پر تشریف لے گئے اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت تھے، پھر آپ واپس سیدہ عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے اور وہاں کی کھجوریں گویا شیطانوں کے سر ہیں۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے نکالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ بہر کیف اللہ تعالٰی مجھے شفا دے دی ہے اب مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا لوگوں میں کوئی شر پیدا ہو۔ پھر آپ نے اسے دفن کر دینے کا حکم دیا۔
تشریح:
(1) ابن سعد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو اس کنویں پر بھیجا کہ وہاں جا کر جادو کا سامان اٹھا لائیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبیر بن ایاس زرقی کو بلایا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، انہوں نے بئر ذروان میں جادو کے سامان کی نشاندہی کی۔ ممکن ہے کہ آپ نے پہلے ان حضرات کو بھیجا ہو بعد میں خود بھی تشریف لے گئے ہوں اور خود اس کا مشاہدہ کیا ہو۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 283/10) (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور چند روز تک اس کا اثر بھی رہا، شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکمت تھی کہ آپ کا جادوگر نہ ہونا سب پر ظاہر ہو جائے کیونکہ جادوگر پر جادو اثر نہیں کرتا۔ یہود آپ کو حسد کی وجہ سے شہید کرنا چاہتے تھے، پہلے زہریلا گوشت کھلایا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا اور اب انہوں نے آپ پر سخت قسم کا جادو کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات دی اور یہود کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5548
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5766
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5766
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5766
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے قبل ازیں انہی الفاظ سے عنوان قائم کیا تھا۔ (باب: 47) اور اس کے اثبات کے لیے یہی حدیث بیان کی تھی (حدیث: 5763) بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث پر ایک ہی طرح کے دو عنوان قائم کیے ہوں۔ اس میں ضرور حکمت ہو گی جو اب ہمارے ذہن میں نہیں آ رہی۔ واللہ اعلم
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا : کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے جو قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھتا ہے پہلے نے کہا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں جو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا وہ کہاں رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا: ”ذروان نامی کنویں میں رکھا ہے۔“ نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کوساتھ لے کر اس کنویں پر تشریف لے گئے اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت تھے، پھر آپ واپس سیدہ عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے اور وہاں کی کھجوریں گویا شیطانوں کے سر ہیں۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے نکالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ بہر کیف اللہ تعالٰی مجھے شفا دے دی ہے اب مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا لوگوں میں کوئی شر پیدا ہو۔ پھر آپ نے اسے دفن کر دینے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابن سعد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو اس کنویں پر بھیجا کہ وہاں جا کر جادو کا سامان اٹھا لائیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبیر بن ایاس زرقی کو بلایا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، انہوں نے بئر ذروان میں جادو کے سامان کی نشاندہی کی۔ ممکن ہے کہ آپ نے پہلے ان حضرات کو بھیجا ہو بعد میں خود بھی تشریف لے گئے ہوں اور خود اس کا مشاہدہ کیا ہو۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 283/10) (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور چند روز تک اس کا اثر بھی رہا، شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکمت تھی کہ آپ کا جادوگر نہ ہونا سب پر ظاہر ہو جائے کیونکہ جادوگر پر جادو اثر نہیں کرتا۔ یہود آپ کو حسد کی وجہ سے شہید کرنا چاہتے تھے، پہلے زہریلا گوشت کھلایا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا اور اب انہوں نے آپ پر سخت قسم کا جادو کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات دی اور یہود کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا اثر یہ تھا کہ آپ کو خیال ہوتا کہ آپ کوئی چیز کر چکے ہیں حالانکہ وہ چیز نہ کی ہوتی ایک دن آنحضرت ﷺ میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اورمسلسل دعائیں کر رہے تھے پھر فرمایا یا عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے مجھے دے دیا ہے۔ میں نے عرض کی وہ کیا بات ہے یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا میرے پاس دو فرشتے (حضرت جبرئیل و حضرت میکائیل ؑ ) آئے اور ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا پاؤں کی طرف پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ان صاحب کی تکلیف کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ فرمایا بنی زریق کے لبید بن اعصم یہودی نے، پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھا ہوا ہے۔ پوچھا اور وہ جادو رکھا کہاں ہے؟ جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت بھی تھے پھر آپ واپس حضرت عائشہ ؓ کے یہاں تشریف لائے اور فرمایا اللہ کی قسم اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا (سرخ) ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کنگھی بال وغیرہ غلاف سے نکلوائے یا نہیں۔ آ پ نے فرمایا نہیں، سن لے اللہ نے تو مجھ کو شفا دے دی، تندرست کر دیا اب میں ڈرا کہیں لوگوں میں ایک شور نہ پھیلے اور آنحضرت ﷺ نے اس سامان کے گاڑ دینے کا حکم دیا وہ گاڑ دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ابن سعد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کواس کنویں پر بھیجا کہ جا کر یہ جادو کا سامان اٹھا لائیں۔ ایک روایت میں ہے حضرت جبیر بن یاس زرقی کو بھیجا انہوں نے یہ چیزیں کنویں سے نکالیں ممکن ہے کہ پہلے آپ نے ان لوگوں کو بھیجا ہو اور بعد میں آپ خود بھی تشریف لے گئے ہوں جیسا کہ یہاں مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چند روز اس جادو کا اثر رہا اس میں یہ حکمت الٰہی تھی کہ آپ کا جادو گر نہ ہونا سب پر کھل جائے کیونکہ جادو گر کا اثر جادو گر پر نہیں ہوتا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Magic was worked on Allah's Apostle (ﷺ) so that he began to imagine that he had done something although he had not. One day while he was with me, he invoked Allah and invoked for a long period and then said, "O 'Aisha! Do you know that Allah has instructed me regarding the matter I asked Him about?" I asked, "What is that, O Allah's Apostle?" He said, "Two men came to me; one of them sat near my head and the other sat near my feet. One of them asked his companion, 'What is the disease of this man?' The other replied, 'He is under the effect of magic.' The first one asked, 'Who has worked magic on him?" The other replied, 'Labid bin A'sam, a Jew from the tribe of Bani Zuraiq.' The (first one asked), 'With what has it been done?' The other replied, 'With a a comb and the hair stuck to it and a skin of the pollen of a male datepalm tree.' The first one asked, 'Where is it?' The other replied, 'In the well of Dharwan.' Then the Prophet (ﷺ) went along with some of his companions to that well and looked at that and there were date palms near to it. Then he returned to me and said, 'By Allah the water of that well was (red) like the infusion of Henna leaves and its date-palms were like the heads of devils" I said, O Allah's Apostle (ﷺ) ! Did you take those materials out of the pollen skin?" He said, 'No! As for me Allah has healed me and cured me and I was afraid that (by Showing that to the people) I would spread evil among them when he ordered that the well be filled up with earth, and it was filled up with earth "