مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جس کاکنارہ بنانہیں ہوتا اس میں صرف تانا ہوتا ہے ۔ اور زہری ، ابوبکر بن محمد ، حمزہ بن ابی اسید اور معاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے منقول ہے کہ ان بزرگوں نے جھالر دار کپڑے پہنے ہیں ۔
5792.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو، لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا، جب تک وہ تیری لذت نہ لے اور تو اس کی لذت نہ چکھ لے۔“ اس کے بعد یہ فیصلہ قانون بن گیا۔
تشریح:
(1) اس عورت نے چادر کا وہ کنارا پکڑ کر اشارہ کیا جو صرف دھاگوں کی صورت میں تھا اور اسے بنا نہیں گیا تھا، جو چادر بنی ہوئی ہو اس میں کچھ تناؤ ہوتا ہے لیکن دھاگے تو ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے عورت کے اس اشارے سے عنوان ثابت کیا کہ اس نے ڈورے دار چادر پہن رکھی تھی۔ اگر اس کا پہننا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کرتے۔ ڈورے دار چادر پہننے کے متعلق ایک واضح حدیث ہے حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے گھٹنوں کو اٹھائے ایک چادر پہنے بیٹھے تھے اور اس چادر کے ڈورے آپ کے قدموں پر پڑ رہے تھے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4057) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم کپڑے کے اطراف میں اگر دھاگے بطور زینت چھوڑ دیے گئے ہوں اور انہیں بنا نہ گیا ہو بلکہ ایک خاص انداز سے ٹانکا گیا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5573
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5792
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5792
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5792
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
عربی زبان میں ازار مہذب اس چادر کو کہتے ہیں جس کے دونوں طرف طول کے بل دھاگوں کو بُنا نہ گیا ہو بلکہ انہیں گرہ دے کر یا بٹ دے کر یا ویسے ہی چھوڑ دیا گیا ہو، ایسی چادر پہننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کے پہننے سے کوئی فخر و غرور دل میں نہیں آتا۔
جس کاکنارہ بنانہیں ہوتا اس میں صرف تانا ہوتا ہے ۔ اور زہری ، ابوبکر بن محمد ، حمزہ بن ابی اسید اور معاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے منقول ہے کہ ان بزرگوں نے جھالر دار کپڑے پہنے ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو، لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا، جب تک وہ تیری لذت نہ لے اور تو اس کی لذت نہ چکھ لے۔“ اس کے بعد یہ فیصلہ قانون بن گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عورت نے چادر کا وہ کنارا پکڑ کر اشارہ کیا جو صرف دھاگوں کی صورت میں تھا اور اسے بنا نہیں گیا تھا، جو چادر بنی ہوئی ہو اس میں کچھ تناؤ ہوتا ہے لیکن دھاگے تو ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے عورت کے اس اشارے سے عنوان ثابت کیا کہ اس نے ڈورے دار چادر پہن رکھی تھی۔ اگر اس کا پہننا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کرتے۔ ڈورے دار چادر پہننے کے متعلق ایک واضح حدیث ہے حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے گھٹنوں کو اٹھائے ایک چادر پہنے بیٹھے تھے اور اس چادر کے ڈورے آپ کے قدموں پر پڑ رہے تھے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4057) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم کپڑے کے اطراف میں اگر دھاگے بطور زینت چھوڑ دیے گئے ہوں اور انہیں بنا نہ گیا ہو بلکہ ایک خاص انداز سے ٹانکا گیا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام زہری، ابوبکر بن محمد، حمزہ بن ابو اسید اور معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈورے دار کپڑے پہنے ہوئے تھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر اور انہیں حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی ؓ کی بیوی رسول للہ ﷺ کے پاس آئیں۔ میں بھی بیٹھی ہوئی تھی اور آنحضرت ﷺ کے پاس حضرت ابوبکر ؓ موجود تھے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میں رفاعہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں۔ (مغلظہ) اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا اور اللہ کی قسم کہ ان کے ساتھ یا رسول اللہ (ﷺ)! صرف اس جھالر جیسا ہے۔ انہوں نے اپنی چادر کے جھالر کو اپنے ہاتھ میں لے کر اشارہ کیا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ جو دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں ابھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہو ئی تھی، اس نے بھی ان کی بات سنی۔ بیان کیا کہ حضرت خالد ؓ (وہیں سے) بولے۔ ابو بکر! آپ اس عورت کو روکتے نہیں کہ کس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے لیکن اللہ کی قسم اس بات پر حضور اکرم ﷺ کا تبسم اور بڑھ گیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا غالباً تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جاناچاہتی ہو؟ لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ (تمہارے دوسرے شوہر عبدالرحمن بن زبیر ؓ ) تمہارا مزا نہ چکھ لیں اور تم ان کا مزا نہ چکھ لو پھر بعد میں یہی قانون بن گیا۔
حدیث حاشیہ:
عورت نے اپنی جھالر دار چادر کی طرف اشارہ کیا۔ باب سے یہی جملہ مطابقت رکھتا ہے باقی دیگر مسائل جو اس حدیث سے نکلتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ قانون یہ بنا کہ جس عورت کو تین طلاق دے دی جائیں اس کا پہلے خاوند سے پھر نکاح نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند سے صحبت نہ کرائے پھر وہ خاوند خود اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، یہ شرعی حلالہ ہے۔ پھر خود اس مقصد کے تحت فرضی حلالہ کرانا موجب لعنت ہے اللہ ان علماء پر رحم کرے جو عورتوں کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ تین طلاق سے تین طہر کی طلاقیں مراد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) The wife of Rifa'a Al-Qurazi came to Allah's Apostle (ﷺ) while I was sitting, and Abu Bakr (RA) was also there. She said, 'O Allah s Apostle (ﷺ) ! I was the wife of Rifa'a and he divorced me irrevocably. Then I married AbdurRahman bin Az-Zubair who, by Allah, O Allah's Apostle, has only something like a fringe of a garment, Showing the fringe of her veil. Khalid bin Sa'id, who was standing at the door, for he had not been admitted, heard her statement and said, "O Abu Bakr! Why do you not stop this lady from saying such things openly before Allah's Apostle?" No, by Allah, Allah's Apostle (ﷺ) did nothing but smiled. Then he said to the lady, "Perhaps you want to return to Rifa'a? That is impossible unless 'Abdur-Rahman consummates his marriage with you." That became the tradition after him.