مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ ” اب تم میری اس قمیص کو لے جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دوتو ان کی آنکھیں بفضلہ تعالیٰ روشن ہوجائیں گی ۔
5794.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! ”محرم آدمی کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا محرم آدمی قمیض، شلوار، ٹوپی اور موزے نہ پہنے۔ اگر اسے جوتا نہ ملے تو موزوں کو ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے۔“
تشریح:
(1) عربوں کے ہاں قمیص پہننے کا بھی رواج تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے متعلق فرمایا کہ وہ قمیص نہ پہنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سے قمیص زیادہ پسند تھی، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص سے بڑھ کر اور کوئی کپڑا زیادہ پسند نہ تھا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4026) حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی تک ہوا کرتی تھی۔ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1765) (2) قمیص کے زیادہ پسند ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں پردہ زیادہ ہوتا ہے اور چادر کی طرح اسے لپیٹنے اور سنبھالنے کا اہتمام بھی نہیں کرنا پڑتا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5575
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5794
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5794
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5794
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قمیص پہننا کوئی نئی چیز نہیں ہے اگرچہ عرب عام طور پر چادر اور تہ بند پہنتے تھے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں قمیص کا ذکر ہے، اس کے علاوہ متعدد احادیث میں بھی ان کا بیان ہوا ہے۔ بہرحال ابن عربی کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ میں نے مذکورہ آیت اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے واقعے کے علاوہ کسی صحیح حدیث میں قمیص کا ذکر نہیں دیکھا۔ (فتح الباری: 10/328)
اور اللہ پاک نے سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ ” اب تم میری اس قمیص کو لے جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دوتو ان کی آنکھیں بفضلہ تعالیٰ روشن ہوجائیں گی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! ”محرم آدمی کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا محرم آدمی قمیض، شلوار، ٹوپی اور موزے نہ پہنے۔ اگر اسے جوتا نہ ملے تو موزوں کو ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عربوں کے ہاں قمیص پہننے کا بھی رواج تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے متعلق فرمایا کہ وہ قمیص نہ پہنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سے قمیص زیادہ پسند تھی، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص سے بڑھ کر اور کوئی کپڑا زیادہ پسند نہ تھا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4026) حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی تک ہوا کرتی تھی۔ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1765) (2) قمیص کے زیادہ پسند ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں پردہ زیادہ ہوتا ہے اور چادر کی طرح اسے لپیٹنے اور سنبھالنے کا اہتمام بھی نہیں کرنا پڑتا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن سلمہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ ایک صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ! محرم کس طرح کا کپڑا پہنے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ محرم قمیص، پاجامہ، برنس (ٹوپی یا سر پر پہننے کی کوئی چیز) اور موزے نہیں پہنے گا البتہ اگر اسے چپل نہ ملیں تو موزوں ہی کو ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے۔ وہ ہی جوتی کی طرح ہو جائیں گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : A man asked, "O Allah s Apostle (ﷺ) What kind of clothes should a Muhrim wear?" The Prophet, said, "A Muhrim should not wear a shirt, trousers a hooded cloak, or Khuffs (leather socks covering the ankles) unless he cannot get sandals, in which case he should cut the part (of the Khuff) that covers the ankles."