باب: اس بیان میں کہ صبح کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: What is said regarding the offering of As-Salat (the prayers) between the Fajr prayer and sunrise)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
581.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میرے سامنے چند پسندیدہ لوگوں نے جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ حضرت عمر ؓ تھے، یہ بیان کیا کہ نبی ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ طلوع شمس سے مراد اس کا خوب بلند ہونا ہے، علاوہ ازیں حدیث میں نماز کے متعلق دواوقات کا بیان ہے جبکہ عنوان میں نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز سے منع رہنے کا حکم ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے اور فجر کےبعد طلوع آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر نماز نہیں پڑھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف نماز فجر کے بعد نماز کے منع ہونے کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:77/2) (2) اس حدیث میں صرف دو اوقاتِ مکروہ کا ذکر ہے جبکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اوقات مکروہ پانچ ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک۔٭نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔٭عین طلوع آفتاب۔٭استواء آفتاب، یعنی عین دوپہر کے وقت۔٭عین غروب آفتاب۔ ان میں سے پہلے دو اوقات کو نماز فجر اور نماز عصر سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت وقت کی وجہ سے نہیں کہ وقت کی ذاتی خرابی کی بنا پر ان میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ فرض نماز کے حق کی بنا پر ہے تاکہ تمام وقت فرض نماز کے لیے وقف ہو۔ اگر وقت کی ذاتی خرابی بنا پر کراہت ہوتی تو فجرو عصر کی تاخیر طلوع غروب سے قبل تک جائز نہ ہوتی۔ اور آخری تین اوقات ممنوعہ ان کی ذاتی خرابی کی بنا پر ہیں، کیونکہ طلوع غروب کے وقت شیطان کی عبادت کی جاتی ہے اور عین دوپہر کے وقت جہنم جوش میں ہوتی ہے جو غضب الہٰی کا مظہر ہے، نیز اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام اوقات مکروہ میں ایسے نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جو کسی سبب سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ شریعت نے ان کے متعلق کوئی ترغیب ہی دی ہے، البتہ ان اوقات میں فوت شدہ نمازیں، نماز جنازہ اور ایسے نوافل پڑھے جاسکتے ہیں جو کسی سبب سے وابستہ ہیں اور شریعت نے انھیں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے. جیسا کہ تحیۃ المسجد وغیرہ۔ ایسے نوافل کو فقہی اصطلاح میں ذوات الاسباب کہا جاتا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں قتادہ راوی نے ابو العالیہ سے جب روایت بیان کی تو اس میں سماع کی صراحت نہ تھی، اس لیے امام بخاری نے ایک دوسری سند پیش کی ہے جس میں تصریح سماع ہے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری کو چاہیے تھا کہ وہ تصریح سماع والی روایت ہی کو بیان کردیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تصریح سماع والی روایت میں واسطے زیادہ تھے، اس لیے وہ ان کے نزدیک نازل سند تھی۔ پہلی روایت جس میں تصریح سماع نہیں وہ عالی سند سے بیان ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بنیاد بنایا ہے اور اس پر جو اعتراض ہوسکتا تھا اسے دور کرنے کے لیے دوسری سند بیان کردی۔ (عمدة القاري: 110/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
577
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
581
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
581
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
581
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان سے مقصود یہ مسئلہ بیان کرناہے کہ نماز فجر کے بعد کس وقت تک نماز پڑھنا منع ہے اور سورج بلند ہونے کے بعد جو نماز پڑھی جائے گی اس کی کیا حیثیت ہوگی۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میرے سامنے چند پسندیدہ لوگوں نے جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ حضرت عمر ؓ تھے، یہ بیان کیا کہ نبی ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ طلوع شمس سے مراد اس کا خوب بلند ہونا ہے، علاوہ ازیں حدیث میں نماز کے متعلق دواوقات کا بیان ہے جبکہ عنوان میں نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز سے منع رہنے کا حکم ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے اور فجر کےبعد طلوع آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر نماز نہیں پڑھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف نماز فجر کے بعد نماز کے منع ہونے کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:77/2) (2) اس حدیث میں صرف دو اوقاتِ مکروہ کا ذکر ہے جبکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اوقات مکروہ پانچ ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک۔٭نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔٭عین طلوع آفتاب۔٭استواء آفتاب، یعنی عین دوپہر کے وقت۔٭عین غروب آفتاب۔ ان میں سے پہلے دو اوقات کو نماز فجر اور نماز عصر سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت وقت کی وجہ سے نہیں کہ وقت کی ذاتی خرابی کی بنا پر ان میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ فرض نماز کے حق کی بنا پر ہے تاکہ تمام وقت فرض نماز کے لیے وقف ہو۔ اگر وقت کی ذاتی خرابی بنا پر کراہت ہوتی تو فجرو عصر کی تاخیر طلوع غروب سے قبل تک جائز نہ ہوتی۔ اور آخری تین اوقات ممنوعہ ان کی ذاتی خرابی کی بنا پر ہیں، کیونکہ طلوع غروب کے وقت شیطان کی عبادت کی جاتی ہے اور عین دوپہر کے وقت جہنم جوش میں ہوتی ہے جو غضب الہٰی کا مظہر ہے، نیز اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام اوقات مکروہ میں ایسے نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جو کسی سبب سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ شریعت نے ان کے متعلق کوئی ترغیب ہی دی ہے، البتہ ان اوقات میں فوت شدہ نمازیں، نماز جنازہ اور ایسے نوافل پڑھے جاسکتے ہیں جو کسی سبب سے وابستہ ہیں اور شریعت نے انھیں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے. جیسا کہ تحیۃ المسجد وغیرہ۔ ایسے نوافل کو فقہی اصطلاح میں ذوات الاسباب کہا جاتا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں قتادہ راوی نے ابو العالیہ سے جب روایت بیان کی تو اس میں سماع کی صراحت نہ تھی، اس لیے امام بخاری نے ایک دوسری سند پیش کی ہے جس میں تصریح سماع ہے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری کو چاہیے تھا کہ وہ تصریح سماع والی روایت ہی کو بیان کردیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تصریح سماع والی روایت میں واسطے زیادہ تھے، اس لیے وہ ان کے نزدیک نازل سند تھی۔ پہلی روایت جس میں تصریح سماع نہیں وہ عالی سند سے بیان ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بنیاد بنایا ہے اور اس پر جو اعتراض ہوسکتا تھا اسے دور کرنے کے لیے دوسری سند بیان کردی۔ (عمدة القاري: 110/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ بن دعامہ سے، انھوں نے ابوالعالیہ رفیع سے، انھوں نے ابن عباس ؓ سے، فرمایا کہ میرے سامنے چند معتبر حضرات نے گواہی دی، جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک حضرت عمر ؓ تھے، کہ نبی ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar (RA): "The Prophet (ﷺ) forbade praying after the Fajr prayer till the sun rises and after the 'Asr prayer till the sun sets."