مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5873.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی وہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں تاوفات رہی۔ آپ نے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی، حتیٰ کہ وہ اریس کے کنویں میں گر گئی۔ اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ تھا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد ذوالحجہ چھ ہجری میں جب مدینہ طیبہ واپس آئے تو آپ نے عجمی بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھنے کا ارادہ کیا۔ آپ سے کہا گیا کہ یہ لوگ اس خط کو نہیں پڑھتے جس پر مہر ثبت نہ ہو۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا تاکہ مہر لگنے کے بعد خط کی حیثیت سرکاری ہو جائے۔ (2) خطوط پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حکومتی راز اور سیاسی تدابیر محفوظ رہیں اور ان کا عام چرچا نہ ہو۔ انگوٹھی پر کوئی عبارت بھی کندہ کی جا سکتی ہے۔ اللہ کا ذکر کندہ کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ استنجا کے وقت اسے اتار دینا چاہیے۔ نگینے میں کسی کی تصویر کندہ کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصاویر سے منع فرمایا ہے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر شیر کی تصویر کندہ تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے (المصنف لعبدالرزاق، 304/10، رقم: 19469) لیکن یہ روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے اور صحیح احادیث کے خلاف بھی۔ (فتح الباري: 398/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5653
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5873
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5873
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5873
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی وہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں تاوفات رہی۔ آپ نے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی، حتیٰ کہ وہ اریس کے کنویں میں گر گئی۔ اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد ذوالحجہ چھ ہجری میں جب مدینہ طیبہ واپس آئے تو آپ نے عجمی بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھنے کا ارادہ کیا۔ آپ سے کہا گیا کہ یہ لوگ اس خط کو نہیں پڑھتے جس پر مہر ثبت نہ ہو۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا تاکہ مہر لگنے کے بعد خط کی حیثیت سرکاری ہو جائے۔ (2) خطوط پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حکومتی راز اور سیاسی تدابیر محفوظ رہیں اور ان کا عام چرچا نہ ہو۔ انگوٹھی پر کوئی عبارت بھی کندہ کی جا سکتی ہے۔ اللہ کا ذکر کندہ کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ استنجا کے وقت اسے اتار دینا چاہیے۔ نگینے میں کسی کی تصویر کندہ کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصاویر سے منع فرمایا ہے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر شیر کی تصویر کندہ تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے (المصنف لعبدالرزاق، 304/10، رقم: 19469) لیکن یہ روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے اور صحیح احادیث کے خلاف بھی۔ (فتح الباري: 398/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا ، کہاہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی ، انہیں عبیداللہ عمری نے ، انہیں نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ وہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں، اس کے بعد حضرت عمر ؓ کے ہاتھ میں، اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی لیکن ان کے زمانہ میں وہ اریس کے کنویں میں گر گئی اس کا نقش "محمد رسول اللہ'' تھا۔
حدیث حاشیہ:
پھر اس کنویں میں تلاش بسیار کے باوجود وہ انگوٹھی نہ مل سکی۔ معلوم ہوا کہ انگوٹھی کے نگینہ پر اپنا نام نقش کرانا جائز درست ہے باب کا یہی مفہوم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) had a silver ring made for himself and it was worn by him on his hand. Afterwards it was worn by Abu Bakr, and then by 'Umar, and then by 'Uthman till it fell in the Aris well. (On that ring) was engraved: 'Muhammad, the Apostle of Allah (ﷺ) ."