Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Keeping the stone of the ring towards the palm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5876.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ آپ نے جس اسے پہنا تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی اندر کی طرف کیا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اللہ تعالٰی کی حمد وثناء کے بعد فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی لیکن میں اب اسے نہیں پہنوں گا۔ پھرآپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں پھینک دیں جویریہ نے کہا: مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دائیں ہاتھ میں پہننے کے الفاظ بیان کیے تھے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نگینہ اندر ہتھیلی کی طرف ہوا کرتا تھا، تاکہ ریاکاری سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ حضرت صلت بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ انگوٹھی دائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں پہنتے اور اس کا نگینہ باہر کی طرف رکھتے تھے۔ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4229) (2) اکثر روایات دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کے متعلق ہیں، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اپنی انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4228) ایک حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4227) تاہم یہ روایت شاذ ہے۔ صحیح اور محفوظ روایت یہی ہے کہ آپ دائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر زینت کے لیے انگوٹھی پہنی جائے تو دائیں ہاتھ میں اور اگر مہر لگانے کے لیے ہے تو بائیں ہاتھ میں بہتر ہے کیونکہ اسے دائیں ہاتھ سے اتار کر اسی ہاتھ سے مہر لگانا آسان ہو گا۔ (فتح الباري: 402/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5656
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5876
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5876
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5876
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ آپ نے جس اسے پہنا تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی اندر کی طرف کیا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اللہ تعالٰی کی حمد وثناء کے بعد فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی لیکن میں اب اسے نہیں پہنوں گا۔ پھرآپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں پھینک دیں جویریہ نے کہا: مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دائیں ہاتھ میں پہننے کے الفاظ بیان کیے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نگینہ اندر ہتھیلی کی طرف ہوا کرتا تھا، تاکہ ریاکاری سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ حضرت صلت بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ انگوٹھی دائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں پہنتے اور اس کا نگینہ باہر کی طرف رکھتے تھے۔ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4229) (2) اکثر روایات دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کے متعلق ہیں، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اپنی انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4228) ایک حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4227) تاہم یہ روایت شاذ ہے۔ صحیح اور محفوظ روایت یہی ہے کہ آپ دائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر زینت کے لیے انگوٹھی پہنی جائے تو دائیں ہاتھ میں اور اگر مہر لگانے کے لیے ہے تو بائیں ہاتھ میں بہتر ہے کیونکہ اسے دائیں ہاتھ سے اتار کر اسی ہاتھ سے مہر لگانا آسان ہو گا۔ (فتح الباري: 402/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی اور پہننے میں آپ اس کا رنگ اندر کی طرف رکھتے تھے۔ آپ کی دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنا لیں تو حضور اکرم ﷺ منبر پر تشریف لائے اور اللہ کی حمد وثنا کی اور فرمایا میں نے بھی سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی (حرمت نازل ہونے کے بعد) آپ نے فرمایا کہ اب میں اسے نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی اور لوگوں نے بھی اپنی سونے کی انگوٹھیوں کو پھینک دیا۔ جویریہ نے بیان کیا کہ مجھے یہی یاد ہے کہ نافع نے ”داہنے ہاتھ میں“ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
کہ آپ انگوٹھی پہنتے تھے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ نافع بن سرجس حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد رکردہ ہیں، حدیث کے بہت ہی بڑے فاضل ہیں اور امام مالک کہتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو بالکل بے فکر ہو جاتا ہوں۔ مؤطا میں زیادہ تر روایات حضرت نافع ہی کے واسطے سے مروی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) had a golden ring made for himself, and when he wore it. he used to turn its stone toward the palm of his! hand. So the people too had gold made for themselves. The Prophet (ﷺ) then ascended the pulpit, and after glorifying and praising Allah, he said, "I had it made for me, but now I will never wear it again." He threw it away, and then the people threw away their rings too. (Juwairiya, a sub-narrator, said: I think Anas said that the Prophet (ﷺ) was wearing the ring in his right hand.)