ترجمة الباب:
السَّمَرِ فِي الفِقْهِ وَالخَيْرِ بَعْدَ العِشَاءِ السامر والجمع السمار والسامر ﻫﻬﻨﺎ في موضع الجمع و اصل السمر ضؤلون القمر و کانوا يتحدثون فيه.
باب: عشاء کی نماز کے بعد سمر یعنی دنیا کی باتیں کرنا مکروہ ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: What is disliked about talking after the 'Isha prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سامرکا لفظ جو قرآن میں ہےسمرہی سے نکلا ہے۔ اس کی جمعسمارہے اور لفظسامراس آیت میں جمع کے معنی میں ہے۔سمراصل میں چاند کی روشنی کو کہتے ہیں، اہل عرب چاندنی راتوں میں گپ شپ کیا کرتے تھے۔سورۂ مومنون میں یہ آیت ہے((مستکبیرین بہ سامراتھجرون))یعنی تم ہماری آیتوں پر اکڑ کےبے ہودہ بکواس کیا کرتے تھے حضرت امام بخاری کی یہ عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ قرآن مجید کا آجائےتو اس کی تفسیر بھی ساتھ ہی کر دیتے ہیں
599.
حضرت ابومنہال سیار بن سلامہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد محترم نے ان سے عرض کیا: آپ بیان کریں کہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نماز ظہر جسے تم پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ اور نماز عصر اس وقت پڑھتے کہ جب ہمارا کوئی آدمی نماز پڑھ کر عوالی مدینہ میں اپنے گھر پہنچتا تو ابھی سورج خوب روشن ہوتا۔ راوی کہتا ہے کہ مغرب کے متعلق انہوں نے جو فرمایا میں اسے بھول گیا ہوں۔ صحابی کہتے ہیں کہ آپ عشاء کی نماز دیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے، نیز عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ اور صبح کی نماز سے فراغت کے بعد آپ وقت میں لوٹتے جب ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس والے ساتھی کو پہچان لیتا تھا اور آپ اس میں ساٹھ سے سو تک آیات پڑھا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث پہلے (541) نماز عصر کا وقت بیان کرتے ہوئے ذکر ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر نماز عشاء کے بعد قصہ گوئی کی کراہت بیان کرنے کے لیے اسے دوبارہ ذکر کیا ہے۔ عشاء کے بعد باتیں کرنے اور قصہ گوئی میں مصروف ہونے کی کراہت اس لیے ہے کہ مبادا نماز فجر قضا ہو جائے یا کم از کم وقت مختار نکل جائے، نیز قیام اللیل پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ حضرت عمر ؓ لوگوں کواس بات پر مارا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ شروع رات میں قصہ گوئی اور باتوں میں وقت خراب کرو گے تو رات کے آخری حصے میں نیند آئے گی۔ اس کے مفاسد محتاج بیان نہیں۔ (2) اگر اس بات کو کراہت کی علت قرار دیا جائے تو بڑی اور چھوٹی راتوں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ دور اندیشی کے پیش نظر یہ ممانعت مطلق طور پر ہو، کیونکہ شریعت جب کسی چیز پر خرابی کے اندیشے سے کوئی حکم لگاتی ہے تو پھر وہ سختی سے قائم رہتی ہے، اس لیے شریعت نے نماز عشاء کے بعد مباح باتوں سے روک دیا ہے، کیونکہ حرام باتیں تو ہر وقت منع ہیں۔ (فتح الباري:97/2) تاہم ایسی باتیں جن میں دعوت و تبلیغ یا مسلمانوں کی فلاح و بہبود مقصود ہو، ان کے متعلق شریعت نرم گوشہ رکھتی ہے، جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، لیکن وہ اس حد تک ہونی چاہیے کہ نماز فجر متاثر نہ ہو۔ اگر نماز فجر قضا ہونے یا وقت مختار نکل جانے کا اندیشہ ہوتو عشاء کے بعد خیرو برکت پر مشتمل باتوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
595
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
599
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
599
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
599
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ حافظ قرآن ہیں،اس لیے حدیث میں جب کوئی ایسا لفظ آتا ہے جو قرآنی الفاظ سے ماخوز ہوتو آپ کا ذہن فورا اس آیت قرآنی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:( مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ﴿٦٧﴾)(المومنون 23: 67)"تم کافر لوگ اپنے گھمنڈ میں میری آیات کو افسانے سمجھتے اور بکواس کیا کرتے تھے۔"لفظ سمر کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوگیا،اس لیے فرمایا کہ لفظ سامر یہاں، یعنی قرآن میں جمع کے معنی میں ہے۔اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ بعض اوقات عشاء کے بعد قصہ گوئی میں مصروف ہونے کی وجہ سے صبح ک نماز بروقت نہیں پڑھی جاسکتی،اس لیے ان کاموں کے ناپسند ہونے کو بیان فرمایا جو نماز کی بروقت ادائیگی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔(فتح الباری: 2/96)
سامرکا لفظ جو قرآن میں ہےسمر ہی سے نکلا ہے۔ اس کی جمع سمار ہے اور لفظسامراس آیت میں جمع کے معنی میں ہے۔سمراصل میں چاند کی روشنی کو کہتے ہیں، اہل عرب چاندنی راتوں میں گپ شپ کیا کرتے تھے۔سورۂ مومنون میں یہ آیت ہے((مستکبیرین بہ سامراتھجرون))یعنی تم ہماری آیتوں پر اکڑ کےبے ہودہ بکواس کیا کرتے تھے حضرت امام بخاری کی یہ عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ قرآن مجید کا آجائےتو اس کی تفسیر بھی ساتھ ہی کر دیتے ہیں
حدیث ترجمہ:
حضرت ابومنہال سیار بن سلامہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد محترم نے ان سے عرض کیا: آپ بیان کریں کہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نماز ظہر جسے تم پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ اور نماز عصر اس وقت پڑھتے کہ جب ہمارا کوئی آدمی نماز پڑھ کر عوالی مدینہ میں اپنے گھر پہنچتا تو ابھی سورج خوب روشن ہوتا۔ راوی کہتا ہے کہ مغرب کے متعلق انہوں نے جو فرمایا میں اسے بھول گیا ہوں۔ صحابی کہتے ہیں کہ آپ عشاء کی نماز دیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے، نیز عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ اور صبح کی نماز سے فراغت کے بعد آپ وقت میں لوٹتے جب ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس والے ساتھی کو پہچان لیتا تھا اور آپ اس میں ساٹھ سے سو تک آیات پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث پہلے (541) نماز عصر کا وقت بیان کرتے ہوئے ذکر ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر نماز عشاء کے بعد قصہ گوئی کی کراہت بیان کرنے کے لیے اسے دوبارہ ذکر کیا ہے۔ عشاء کے بعد باتیں کرنے اور قصہ گوئی میں مصروف ہونے کی کراہت اس لیے ہے کہ مبادا نماز فجر قضا ہو جائے یا کم از کم وقت مختار نکل جائے، نیز قیام اللیل پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ حضرت عمر ؓ لوگوں کواس بات پر مارا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ شروع رات میں قصہ گوئی اور باتوں میں وقت خراب کرو گے تو رات کے آخری حصے میں نیند آئے گی۔ اس کے مفاسد محتاج بیان نہیں۔ (2) اگر اس بات کو کراہت کی علت قرار دیا جائے تو بڑی اور چھوٹی راتوں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ دور اندیشی کے پیش نظر یہ ممانعت مطلق طور پر ہو، کیونکہ شریعت جب کسی چیز پر خرابی کے اندیشے سے کوئی حکم لگاتی ہے تو پھر وہ سختی سے قائم رہتی ہے، اس لیے شریعت نے نماز عشاء کے بعد مباح باتوں سے روک دیا ہے، کیونکہ حرام باتیں تو ہر وقت منع ہیں۔ (فتح الباري:97/2) تاہم ایسی باتیں جن میں دعوت و تبلیغ یا مسلمانوں کی فلاح و بہبود مقصود ہو، ان کے متعلق شریعت نرم گوشہ رکھتی ہے، جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، لیکن وہ اس حد تک ہونی چاہیے کہ نماز فجر متاثر نہ ہو۔ اگر نماز فجر قضا ہونے یا وقت مختار نکل جانے کا اندیشہ ہوتو عشاء کے بعد خیرو برکت پر مشتمل باتوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
سامر کا لفظ سمر سے ماخوذ ہے، اس کی جمع سُمار ہے۔ اور اس مقام پر سامر جمع کے معنوں میں مستعمل ہے۔ عربی زبان میں سمر کا لفظ چاند کی چاندنی کے لیے بولا جاتا ہے۔ چونکہ لوگ اس میں مزے لے لے کر باتیں کرتے تھے اس لیے بعد میں رات کے وقت باتیں کرنے کے لیے استعمال ہونے لگے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے عوف اعرابی نے، کہا کہ ہم سے ابوالمنہال سیار بن سلامہ نے، انھوں نے کہا کہ میں اپنے باپ سلامہ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے میرے والد صاحب نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کس طرح (یعنی کن کن اوقات میں) پڑھتے تھے۔ ہم سے اس کے بارے میں بیان فرمائیے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ہجیر (ظہر) جسے تم صلوٰۃ اولیٰ کہتے ہو سورج ڈھلتے ہی پڑھتے تھے۔ اور آپ ﷺ کے عصر پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص اپنے گھر واپس ہوتا اور وہ بھی مدینہ کے سب سے آخری کنارہ پر تو سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا۔ مغرب کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا مجھے یاد نہیں رہا۔ اور فرمایا کہ عشاء میں آپ ﷺ تاخیر پسند فرماتے تھے۔ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ صبح کو نماز سے جب آپ ﷺ فارغ ہوتے تو ہم اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان لیتے۔ آپ ﷺ فجر میں ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu-l-Minhal (RA): My father and I went to Abi Barza Al-Aslami and my father said to him, "Tell us how Allah's Apostle (ﷺ) used to offer the compulsory congregational prayers." He said, "He used to pray the Zuhr prayer, which you call the first prayer, as the sun declined at noon, the 'Asr at a time when one of US could go to his family at the farthest place in Madinah while the sun was still hot. (The narrator forgot what Abu Barza had said about the Maghrib prayer), and the Prophet (ﷺ) preferred to pray the 'Isha' late and disliked to sleep before it or talk after it. And he used to return after finishing the morning prayer at such a time when it was possible for one to recognize the person sitting by his side and he (the Prophet) used to recite 6O to 100 'Ayat' (verses) of the Qur'an in it."