باب: کسی آدمی کی نسبت یہ کہنا کہ لمبا یا ٹھگنا ہے بشرطیکہ اس کی تحقیر کی نیت نہ ہو غیبت نہیں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Describing somebody as tall or short)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور آنحضرت ﷺ نے خود فرمایا ذوالیدین یعنی لمبے ہاتھوں والا کیا کہتا ہے ، اس طرح ہر بات جس سے عیب بیان کرنا مقصود نہ ہو جائز ہے ۔
6051.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا اس کے بعد مسجد کے صحن میں ایک لکڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس پر اپنا دست مبارک رکھ لیا۔ حاضرین میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی موجود تھے وہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔ جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل کر چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ شاید نماز کم کر دی گئی ہے؟ حاضرین میں ایک آدمی تھا جسے نبی ﷺ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہا کرتے تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم ہوئی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔“ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیرا۔ پھر آپ نے اللہ أکبر کہا اور نماز کے سجدے کی طرح سجدہ کیا بلکہ اس سے بھی لمبا سجدہ کیا پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور اللہ أکبر کہا۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی میں کوئی اضافی صفت ہو تو اس کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کی توہین یا عیب جوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبے ہاتھوں والے کو ذوالیدین کہا اگرچہ کچھ اہل علم اس معاملے میں تشدد کرتے ہیں اور ایسے اوصاف بیان کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ حمید "الطّویل" کو غیبت میں شمار کرتے تھے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے پست قد کو بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تونے اس کی غیبت کی ہے۔‘‘ (مسند أحمد:136/6) لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر ایسا اشارہ یا کنایہ اس کی شناخت کے لیے ہو تو جائز ہے اور اگر شناخت کے بجائے اس کی توہین وتحقیر مقصود ہوتو جائز نہیں۔ واللہ أعلم(فتح الباري:575/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5828
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6051
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6051
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6051
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
یہ عنوان القاب کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔اگر کسی کی شناخت لقب کے بغیر ممکن نہ ہو اور اس کی حقارت یا تنقیص مقصود نہ ہوتو کسی کو طویل کہنا جائز ہے،بصورت دیگر جائز نہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معلق روایت میں ذکر کردہ الفاظ کو متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث:482)
اور آنحضرت ﷺ نے خود فرمایا ذوالیدین یعنی لمبے ہاتھوں والا کیا کہتا ہے ، اس طرح ہر بات جس سے عیب بیان کرنا مقصود نہ ہو جائز ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا اس کے بعد مسجد کے صحن میں ایک لکڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس پر اپنا دست مبارک رکھ لیا۔ حاضرین میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی موجود تھے وہ آپ کی ہیبت کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔ جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل کر چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ شاید نماز کم کر دی گئی ہے؟ حاضرین میں ایک آدمی تھا جسے نبی ﷺ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہا کرتے تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز ہی کم ہوئی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔“ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیرا۔ پھر آپ نے اللہ أکبر کہا اور نماز کے سجدے کی طرح سجدہ کیا بلکہ اس سے بھی لمبا سجدہ کیا پھر اپنا سر مبارک اٹھایا اور اللہ أکبر کہا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی میں کوئی اضافی صفت ہو تو اس کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کی توہین یا عیب جوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبے ہاتھوں والے کو ذوالیدین کہا اگرچہ کچھ اہل علم اس معاملے میں تشدد کرتے ہیں اور ایسے اوصاف بیان کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ حمید "الطّویل" کو غیبت میں شمار کرتے تھے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے پست قد کو بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تونے اس کی غیبت کی ہے۔‘‘ (مسند أحمد:136/6) لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر ایسا اشارہ یا کنایہ اس کی شناخت کے لیے ہو تو جائز ہے اور اگر شناخت کے بجائے اس کی توہین وتحقیر مقصود ہوتو جائز نہیں۔ واللہ أعلم(فتح الباري:575/10)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: ”لمبے ہاتھوں والا کیا کہتا ہے؟“ اور اس طرح کے دیگر القابات سے بھی پکارا جاسکتا ہے جن میں آدمی کی تحقیر کرنا مقصود نہ ہو
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا اس کے بعد آپ مسجد کے آگے کے حصہ یعنی دالان میں ایک لکڑی پر سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا، حاضرین میں حضرت ابو بکر اور عمر بھی موجود تھے مگر آپ کے دبدبے کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے اور جلد باز لوگ مسجد سے باہر نکل گئے آپس میں صحابہ نے کہا کہ شاید نماز میں رکعات کم ہو گئیں ہیں اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز چار کے بجائے صرف دو ہی رکعات پڑھائیں ہیں۔ حاضرین میں ایک صحابی تھے جنہیں آپ ”ذوالیدین“ (لمبے ہاتھوں والا) کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے، انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! نماز کی رکعات کم ہو گئیں ہیں یا آپ بھول گئے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعات کم ہوئیں ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! آپ بھول گئے ہیں، چنانچہ آپ نے یاد کر کے فرمایا کہ ذوالیدین نے صحیح کہا ہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعات اور پڑھائیں پھر سلام پھیرا اور تکبیر کہہ کر سجدہ (سہو) میں گئے، نماز کے سجدہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ لمبا سجدہ کیا پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہہ کر پھر سجدہ میں گئے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے بھی لمبا۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
حدیث حاشیہ:
بس اس کے بعد قعدہ نہیں کیا نہ دوسرا سلام پھیرا جیسا کہ بعض کیا کرتے ہیں اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ بھولے سے اگر نماز میں بات کرلے یہ سمجھ کر نماز پوری ہو گئی تو نماز فاسد نہیں ہوتی مگر بعض لوگ اس کے بھی خلاف کرتے ہیں۔ حدیث میں ایک شخص کو لمبے ہاتھوں والا کہا گیا سو ایسا ذکر جائز ہے بشر طیکہ اس کی تحقیر کرنا مقصود نہ ہو اگر کہے کہ ذوالیدین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ بہادر ہو گیا یہ کیونکر ہو سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ذوالیدین ایک عامی آدمی تھا ایسے لوگ بے تکلفی برت جاتے ہیں لیکن مقرب لوگ بہت ڈرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتے اور سب سے زیادہ عبادت کرنے والے اور بڑی محنت اٹھانے والے تھے (صلی اللہ علیہ وسلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) led us in the Zuhr prayer, offering only two Rakat and then (finished it) with Taslim, and went to a piece of wood in front of the mosque and put his hand over it. Abu Bakr (RA) and 'Umar were also present among the people on that day but dared not talk to him (about his unfinished prayer). And the hasty people went away, wondering. "Has the prayer been shortened" Among the people there was a man whom the Prophet (ﷺ) used to call Dhul-Yadain (the longarmed). He said, "O Allah's Prophet! Have you forgotten or has the prayer been shortened?" The Prophet (ﷺ) said, "Neither have I forgotten, nor has it been shortened." They (the people) said, "Surely, you have forgotten, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, Dhul-Yadain has told the truth." So the Prophet (ﷺ) got up and offered other two Rakat and finished his prayer with Taslim. Then he said Takbir, performed a prostration of ordinary duration or longer, then he raised his head and said Takbir and performed another prostration of ordinary duration or longer and then raised his head and said Takbir (i.e. he performed the two prostrations of Sahu, i.e., forgetfulness)."