باب: اگر کسی کو اپنے کسی بھائی مسلمان کا جتنا حال معلوم ہو اتنی ہی ( بلا مبالغہ ) تعریف کرے تو یہ جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Whoever praises his brother with that he knows)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سعد بن ابی وقاص ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی شخص کے متعلق جو زمین پر چلتا پھرتا ہو ، یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ جنتی ہے سوا عبداللہ بن سلام ؓ کے ۔تشریح : آپ سے ایسی بشارت تو بہت سے لوگوں کے لئے ثابت ہے بعض لوگوں نے کہا کہ یہود میں یہ بشارت سوائے حضرت عبداللہ بن سلام کے اور کسی کونہیں دی ورنہ عشرہ مبشرہ اور بہت صحابہ کے لئے آپ کی بشارات موجود ہیں۔ صرف حضرت صدیق اکبر وعمر فاروق وعثمان غنی وحضرت علی ؓ کوآپ نے بارہا فرمایا کہ تم جنتی ہو۔ عشرہ مبشرہ مشہور ہیں۔
6062.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب تہبند لٹکانے کے متعلق کچھ فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا تہبند ایک طرف سے نیچھے ڈھلک جاتا ہے آپ نے فرمایا: ”تم تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ چادر لٹکا کر چلنے سے منع فرمایا اور اس پر سخت وعید سنائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق وضاحت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم تکبر کرنے والوں سے نہیں ہو۔‘‘ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کے متعلق جانتا ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کی فضیلت اور عظمت کا علم ہو جائے اور وہ اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق عزت واحترام پیش آئیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابۂ کرام کے امتیازی اوصاف بیان کیے جیسا کہ متعدد احادیث میں ان کا ذکر ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے انھیں کتاب المناقب میں ذکر کیا ہے۔ بہرحال اگر کسی کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اپنے علم کے مطابق اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:588/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5839
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6062
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6062
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6062
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق اسے بخوبی علم ہے تو اس کی اچھی صفت کے پیش نظر مدح کرنا جائز ہے لیکن اس کی دوشرطیں ہیں:ایک یہ کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو،دوسرے یہ کہ جس کی تعریف کی جائے اس کے فخرو غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔(فتح الباری:10/587)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث:3812)
سعد بن ابی وقاص ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی شخص کے متعلق جو زمین پر چلتا پھرتا ہو ، یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ جنتی ہے سوا عبداللہ بن سلام ؓ کے ۔تشریح : آپ سے ایسی بشارت تو بہت سے لوگوں کے لئے ثابت ہے بعض لوگوں نے کہا کہ یہود میں یہ بشارت سوائے حضرت عبداللہ بن سلام کے اور کسی کونہیں دی ورنہ عشرہ مبشرہ اور بہت صحابہ کے لئے آپ کی بشارات موجود ہیں۔ صرف حضرت صدیق اکبر وعمر فاروق وعثمان غنی وحضرت علی ؓ کوآپ نے بارہا فرمایا کہ تم جنتی ہو۔ عشرہ مبشرہ مشہور ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب تہبند لٹکانے کے متعلق کچھ فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا تہبند ایک طرف سے نیچھے ڈھلک جاتا ہے آپ نے فرمایا: ”تم تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ چادر لٹکا کر چلنے سے منع فرمایا اور اس پر سخت وعید سنائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق وضاحت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم تکبر کرنے والوں سے نہیں ہو۔‘‘ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کے متعلق جانتا ہو تو اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کی فضیلت اور عظمت کا علم ہو جائے اور وہ اس کے مقام اور مرتبے کے مطابق عزت واحترام پیش آئیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابۂ کرام کے امتیازی اوصاف بیان کیے جیسا کہ متعدد احادیث میں ان کا ذکر ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے انھیں کتاب المناقب میں ذکر کیا ہے۔ بہرحال اگر کسی کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اپنے علم کے مطابق اس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:588/10)
ترجمۃ الباب:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے علاوہ میں نے نبی ﷺکو زمین پر چلنے والے کسی آدمی کے متعلق یہ کہتے نہیں سنا: ”یقیناً وہ جنتی ہے“
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کو ازار لٹکا نے کے بارے میں جو کچھ فرمانا تھا جب آپ نے فرمایا تو ابو بکر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا تہمد ایک طرف سے لٹکنے لگتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ تم ان تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔
حدیث حاشیہ:
ٹخنوں سے نیچے تہ بند پا جامہ لٹکانا مرد کے لئے برا ہے کیونکہ یہ تکبر کی نشانی ہے۔ گاہے کسی کا تہ بند یوں ہی بغیر خیال تکبر کے لٹک جائے تو امر دیگر ہے مگر اس عادت سے بچنا لازم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim (RA) : that his father said; "When Allah's Apostle (ﷺ) mentioned wh at he mentioned about (the hanging of) the Izar (waist sheet), Abu Bakr (RA) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My Izar slackens on one side (without my intention)." The Prophet (ﷺ) said, "You are not among those (who, out of pride) drag their Izars behind them."