باب: مہمان کے سامنے غصہ اور رنج کا ظاہر کرنا مکروہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Anger and impatience before a guest)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6140.
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے چند لوگوں کو مہمان بنایا اور عبدالرحمن سے کہا: ان مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ میرے آنے سے پہلے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا، چنانچہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ گئے اور جو کھانا حاضر تھا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ کھانا تناول فرمائیں مہمانوں نے کہا: صاحب خانہ کہاں ہیں؟ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کھانا کھائیں۔ انہوں نے کہا: جب تک صاحب خانہ نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری درخواست قبول کریں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے واپس آنے تک اگر آپ حضرات کھانے سے فارغ نہ ہوئے تو مجھے ان کی طرف سے خفگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کھانے سے انکار ہی کیا۔ میں جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے اس لیے جب وہ تشریف لائے تو میں ایک طرف ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا: تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ گھر والوں نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے عبدالرحمن کہہ کر آواز دی۔ میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے فرمایا: اے جاہل! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سنتا ہے تو میرے پاس آ جا، چنانچہ میں باہر نکلا اور کہا: عبدالرحمن سچ کہہ رہا ہے، وہ کھانا ہمارے پاس لایا تھا آخر کار انہوں نے فرمایا: تم نے صرف میرے انتظار میں کھانا لیٹ کیا۔ اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم اٹھائی: واللہ! جب تک آپ نہیں کھائیں گے ہم بھی نہیں کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میں نے آج رات جیسی تکلیف دہ رات نہیں دیکھی مہمانو! افسوس ہے تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو؟ اے عبدالرحمن! کھانا لاؤ، چنانچہ وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پ رہاتھ رکھ کر کہا: اللہ کا نام لے کر شروع کرتا ہوں پہلی حالت شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر انہوں نے کھانا کھایا تو مہمانوں نے بھی (ان کے ساتھ ) تناول کیا۔
تشریح:
(1) یہ بات اخلاق سے ہے کہ مہمانوں کے سامنے اپنے اہل خانہ پر کسی قسم کی ناراضی کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ خوش مزاجی اور خوش طبعی کو اختیار کیا جائے، اس سلسلے میں جو کچھ ہوا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا بلکہ آپ نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ آج رات ہمیں نحوست کا سامنا کرنا پڑا۔ (2) بہرحال میزبان کا فرض ہے کہ وہ امکانی حد تک مہمان کا اکرام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور مہمان کا بھی فرض ہے کہ وہ میزبان کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہ بنے۔ یہ اسلامی آداب و اخلاق اور دینی معاشرت کی باتیں ہیں، ہمیں انہیں اختیار کر کے دوسروں کے لیے اچھا نمونہ پیش کرنا ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5915
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6140
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6140
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6140
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے چند لوگوں کو مہمان بنایا اور عبدالرحمن سے کہا: ان مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ میرے آنے سے پہلے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا، چنانچہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ گئے اور جو کھانا حاضر تھا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ کھانا تناول فرمائیں مہمانوں نے کہا: صاحب خانہ کہاں ہیں؟ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کھانا کھائیں۔ انہوں نے کہا: جب تک صاحب خانہ نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری درخواست قبول کریں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے واپس آنے تک اگر آپ حضرات کھانے سے فارغ نہ ہوئے تو مجھے ان کی طرف سے خفگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کھانے سے انکار ہی کیا۔ میں جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے اس لیے جب وہ تشریف لائے تو میں ایک طرف ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا: تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ گھر والوں نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے عبدالرحمن کہہ کر آواز دی۔ میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے فرمایا: اے جاہل! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سنتا ہے تو میرے پاس آ جا، چنانچہ میں باہر نکلا اور کہا: عبدالرحمن سچ کہہ رہا ہے، وہ کھانا ہمارے پاس لایا تھا آخر کار انہوں نے فرمایا: تم نے صرف میرے انتظار میں کھانا لیٹ کیا۔ اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم اٹھائی: واللہ! جب تک آپ نہیں کھائیں گے ہم بھی نہیں کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میں نے آج رات جیسی تکلیف دہ رات نہیں دیکھی مہمانو! افسوس ہے تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو؟ اے عبدالرحمن! کھانا لاؤ، چنانچہ وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پ رہاتھ رکھ کر کہا: اللہ کا نام لے کر شروع کرتا ہوں پہلی حالت شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر انہوں نے کھانا کھایا تو مہمانوں نے بھی (ان کے ساتھ ) تناول کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ بات اخلاق سے ہے کہ مہمانوں کے سامنے اپنے اہل خانہ پر کسی قسم کی ناراضی کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ خوش مزاجی اور خوش طبعی کو اختیار کیا جائے، اس سلسلے میں جو کچھ ہوا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا بلکہ آپ نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ آج رات ہمیں نحوست کا سامنا کرنا پڑا۔ (2) بہرحال میزبان کا فرض ہے کہ وہ امکانی حد تک مہمان کا اکرام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور مہمان کا بھی فرض ہے کہ وہ میزبان کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہ بنے۔ یہ اسلامی آداب و اخلاق اور دینی معاشرت کی باتیں ہیں، ہمیں انہیں اختیار کر کے دوسروں کے لیے اچھا نمونہ پیش کرنا ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید الجریری نے بیان کیا، ان سے ابو عثمان نہدی نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے کچھ لوگوں کی میزبانی کی اورعبدالرحمن سے کہا کہ مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس جاؤں گا، میرے آنے سے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا۔ چنانچہ عبدالرحمن کھانا مہمانوں کے پاس لائے اور کہا کہ کھانا کھایئے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کھانا کھا لیں۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک ہمارے میزبان نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمن ؓ نے عرض کیا کہ ہماری درخواست قبول کر لیجئے کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ کے آنے تک اگرآپ لوگ کھانے سے فارغ نہیں ہوگئے تو ہمیں ان کی خفگی کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے اس پر بھی انکار کیا۔ میں جانتا تھا کہ ابو بکر ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ اس لئے جب وہ آئے میں ان سے بچنے لگا۔ انہوں نے پوچھا، تم لوگوں نے کیا کیا؟ گھروالوں نے انہیں بتایا توانہوں نے عبدالرحمن ؓ کوپکارا! میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے پکارا! عبدالرحمن! میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ پھر انہوں نے کہا ارے پاجی میں تجھ کوقسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو باہر آ جا، میں باہر نکلا اور عرض کیا کہ آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں۔ مہمانوں نے بھی کہا عبدالرحمن سچ کہہ رہا ہے۔ وہ کھانا ہمارے پاس لائے تھے۔ آخر والدؓ نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا انتظار کیا، اللہ کی قسم میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم کھا لی اللہ کی قسم جب تک آ پ نہ کھائیں ہم بھی نہ کھائیںگے۔ ابو بکر ؓ نے کہا بھائی میں نے ایسی خراب بات کبھی نہیں دیکھی۔ مہمانو! تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو۔ خیر عبدالرحمن کھانا لا، وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، پہلی حالت (کھانا نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے تھی۔ چنانچہ انہوں نے کھانا کھایا اوران کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آخرانسان تھے، مہمانوں کوبھوکا دیکھ کر گھر والوں پر خفگی کا اظہار کرنے لگے، مہمانوں نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ بھی کھانے سے قسم کھا بیٹھے۔ آخر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود اپنی قسم توڑ کر کھانا کھایا اور مہمانوں کو بھی کھلایا، قسم کھانے کو آپ نے شیطان کی طرف قرار دیا۔ اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے، کیوں کہ آپ نے مہمانوں کے سامنے جو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر غصہ کیا تھا اور قسم کھا لی تھی اس کو شیطان کا اغوا قرار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Abu Bakr (RA) : Abu Bakr (RA) invited a group of people and told me, "Look after your guests." Abu Bakr (RA) added, I am going to visit the Prophet (ﷺ) and you should finish serving them before I return." 'Abdur-Rahman said, So I went at once and served them with what was available at that time in the house and requested them to eat." They said, "Where is the owner of the house (i.e., Abu Bakr)?" 'Abdur-Rahman said, "Take your meal." They said, "We will not eat till the owner of the house comes." 'Abdur-Rahman said, "Accept your meal from us, for if my father comes and finds you not having taken your meal yet, we will be blamed severely by him, but they refused to take their meals . So I was sure that my father would be angry with me. When he came, I went away (to hide myself) from him. He asked, "What have you done (about the guests)?" They informed him the whole story. Abu Bakr (RA) called, "O 'Abdur Rahman!" I kept quiet. He then called again. "O 'Abdur-Rahman!" I kept quiet and he called again, "O ignorant (boy)! I beseech you by Allah, if you hear my voice, then come out!" I came out and said, "Please ask your guests (and do not be angry with me)." They said, "He has told the truth; he brought the meal to us." He said, "As you have been waiting for me, by Allah, I will not eat of it tonight." They said, "By Allah, we will not eat of it till you eat of it." He said, I have never seen a night like this night in evil. What is wrong with you? Why don't you accept your meals of hospitality from us?" (He said to me), "Bring your meal." I brought it to him, and he put his hand in it, saying, "In the name of Allah. The first (state of fury) was because of Satan." So Abu Bakr (RA) ate and so did his guests.