باب: شعر، رجز اورحدی خوانی کاجائز ہونا اورجو چیزیں اس میں ناپسند ہیں ان کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: What kinds of poetry, Rajaz and Huda is allowed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ شعراءمیں فرمایا ، شاعروں کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ وہ باتیں ، کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے ۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور جنہوں نے عمل صالح کئے اوراللہ کا کثرت سے ذکرکیااورجب ان پر ظلم کیا گیا تو انہوں نے اس کا بدلہ لیا اور ظلم کرنے والوں کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ ( فی کل واد یھیمون ) کا مطلب یہ ہے کہ ہرایک لغو بے ہودہ بات میں گھستے ہیں ۔تشریح : رجز وہ شعر جو میدان جنگ میں پڑھے جاتے ہیں اپنی بہادری جتلانے کے لئے اور حدی وہ موزوں کلام جو اونٹوں کو سنایا جاتا ہے تاکہ وہ گرم ہوجائیں اور خوب چلیں یہ حدی خوانی عرب میں ایسی رائج ہے کہ اونٹ اسے سن کر مست ہوجاتے اور کوسوں بغیر تھکنے کے چلے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں ان اونٹوں کی جگہ ملک عرب میں بھی کاروں، بسوں نے لے لی ہے الا ما شاءاللہ ۔ آیت میں ان شعروں کے جواز پر اشارہ ہے جو اسلام کی بر تری اور کفار کے جواب میں کہے جائیں ۔ حضرت حسان ایسے ہی شاعر تھے جن کو دربار رسالت کے شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔
6145.
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کچھ اشعار بہت حکمت بھرے ہوتے ہیں۔“
تشریح:
(1) حکمت سے مراد وہ سچی بات ہے جو واقع کے مطابق ہو۔ جو اشعار وعظ و نصیحت اور حق و صداقت پر مبنی ہوں انہیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ وہ اشعار جو بےہودہ گوئی، جھوٹ اور باطل سے ہم آہنگ ہوں انہیں پڑھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دور جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرتے، شعر پڑھا کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع نہیں کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تبسم فرما کر محظوظ ہوتے تھے۔ (مسند أحمد:5/91) (2) شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا کہ جو شعر اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی تعظیم و تکریم اور اس کی توحید و اطاعت پر مشتمل ہوں انہی کو حدیث میں ''حکمت'' سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو فحش، بے ہودہ اور جھوٹ ہوں وہ قابل مذمت ہیں، ایسے اشعار نہیں پڑھنے چاہئیں۔ (فتح الباري:663/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5919
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6145
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6145
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6145
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
رجز وہ شعر ہے جو میدان جنگ میں اپنی بہادری جتانے کے لیے پڑھے جاتے ہیں اور حُدی وہ ہم وزن و ہم قافیہ کلام ہے جو اونٹوں کو ہانکتے وقت پڑھا جاتا ہے تاکہ یہ کلام سن کر وہ مست ہو جائیں اور تیز چلیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اشعار پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو کفار کے جواب میں اسلام کی سر بلندی کے لیے کہے جائیں۔ حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے شعر اسی قسم کے تھے۔
اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ شعراءمیں فرمایا ، شاعروں کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ وہ باتیں ، کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے ۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور جنہوں نے عمل صالح کئے اوراللہ کا کثرت سے ذکرکیااورجب ان پر ظلم کیا گیا تو انہوں نے اس کا بدلہ لیا اور ظلم کرنے والوں کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ ( فی کل واد یھیمون ) کا مطلب یہ ہے کہ ہرایک لغو بے ہودہ بات میں گھستے ہیں ۔تشریح : رجز وہ شعر جو میدان جنگ میں پڑھے جاتے ہیں اپنی بہادری جتلانے کے لئے اور حدی وہ موزوں کلام جو اونٹوں کو سنایا جاتا ہے تاکہ وہ گرم ہوجائیں اور خوب چلیں یہ حدی خوانی عرب میں ایسی رائج ہے کہ اونٹ اسے سن کر مست ہوجاتے اور کوسوں بغیر تھکنے کے چلے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں ان اونٹوں کی جگہ ملک عرب میں بھی کاروں، بسوں نے لے لی ہے الا ما شاءاللہ ۔ آیت میں ان شعروں کے جواز پر اشارہ ہے جو اسلام کی بر تری اور کفار کے جواب میں کہے جائیں ۔ حضرت حسان ایسے ہی شاعر تھے جن کو دربار رسالت کے شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کچھ اشعار بہت حکمت بھرے ہوتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حکمت سے مراد وہ سچی بات ہے جو واقع کے مطابق ہو۔ جو اشعار وعظ و نصیحت اور حق و صداقت پر مبنی ہوں انہیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ وہ اشعار جو بےہودہ گوئی، جھوٹ اور باطل سے ہم آہنگ ہوں انہیں پڑھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دور جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرتے، شعر پڑھا کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع نہیں کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تبسم فرما کر محظوظ ہوتے تھے۔ (مسند أحمد:5/91) (2) شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا کہ جو شعر اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی تعظیم و تکریم اور اس کی توحید و اطاعت پر مشتمل ہوں انہی کو حدیث میں ''حکمت'' سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو فحش، بے ہودہ اور جھوٹ ہوں وہ قابل مذمت ہیں، ایسے اشعار نہیں پڑھنے چاہئیں۔ (فتح الباري:663/10)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ا ”ور شعراء کے پیچھے تو گمراہ لوگ لگتی ہیں کہ آپ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں“ حضرت ابن عباس ؓ (فی کل واد۔ ۔ ۔ ۔ ۔) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ہر لغو اور بے ہودہ بات میں جاگھستے ہیں
فائدہ: رجز وہ شعر ہیں جو میدان جنگ میں اپنی بہادری جتانے کے لیے پڑھے جاتے ہیں اور حدی وہ موزوں کلام ہے جو اونٹوں کو ہانکتے وقت پڑھا جاتا ہے تاکہ وہ یہ کلام سن کر مست ہوجائیں اور تیز چلیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابو بکر بن عبدالرحمن نے خبر دی، انہیں مروان بن حکم نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث نے خبر دی، انہیں ابی بن کعب ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پراز حکمت ودانش واسلامیات کے اشعار مذموم نہیں ہیں۔