Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: How to write a letter to the people of the Scripture)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6260.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت سفیان بن حرب ؓ نے انہیں بتایا کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ حضرات شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے تھے، چنانچہ سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر پورا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد اس (ہرقل) نے رسول اللہ ﷺ کا نامہ مبارک منگوایا اور اسے پڑھا۔ گیا خط کا مضمون یہ تھا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» ”یہ خط محمد ﷺ کی طرف سے، جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ہے، سلام اس پر ہو جو ہدایت کے راستے پر چلنے والا ہے۔ أمابعد!“
تشریح:
(1) خط لکھنے کا یہ انداز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہونا چاہیے، نیز کاتب کا نام پہلے اور مکتوب الیہ کا نام بعد میں لکھا جائے۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک خاص انداز سے اہل کتاب کو خط لکھتے وقت سلام لکھا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ سلام اس شخص پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ مطلق طور پر اہل کتاب کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہدایت کی اتباع اور حق سے تمسک کے ساتھ مشروط کرکے سلام لکھا جائے۔ (فتح الباري:58/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6034
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6260
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6260
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6260
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت سفیان بن حرب ؓ نے انہیں بتایا کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ حضرات شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے تھے، چنانچہ سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر پورا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد اس (ہرقل) نے رسول اللہ ﷺ کا نامہ مبارک منگوایا اور اسے پڑھا۔ گیا خط کا مضمون یہ تھا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» ”یہ خط محمد ﷺ کی طرف سے، جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ہے، سلام اس پر ہو جو ہدایت کے راستے پر چلنے والا ہے۔ أمابعد!“
حدیث حاشیہ:
(1) خط لکھنے کا یہ انداز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہونا چاہیے، نیز کاتب کا نام پہلے اور مکتوب الیہ کا نام بعد میں لکھا جائے۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک خاص انداز سے اہل کتاب کو خط لکھتے وقت سلام لکھا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ سلام اس شخص پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ مطلق طور پر اہل کتاب کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہدایت کی اتباع اور حق سے تمسک کے ساتھ مشروط کرکے سلام لکھا جائے۔ (فتح الباري:58/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل ابو الحسن نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبد اللہ نے خبر دی انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی اور ان سے زہری نے بیان کیا انہیں عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ نے خبر دی انہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے خبر دی اور انہیں ابو سفیان بن حرب ؓ نے خبر دی کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ لوگ شام تجارت کی غرض سے گئے تھے سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا اور وہ پڑھا گیا خط میں یہ لکھا ہوا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے ﷺ ہرقل عظیم روم کی طرف، سلام ہو ان پر جنہوں نے ہدایت کی اتباع کی۔ أمابعد!
حدیث حاشیہ:
خط لکھنے کا یہ دستور نبوی ہے جو بہت سی خوبیوں پر مشتمل ہے کاتب اور مکتوب کو کس کس طرح قلم چلانی چاہئے یہ جملہ ہدایات اس سے واضح ہے مگر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ وفقنا اللہ لما یحب و یرضی آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sufyan bin Harb (RA) : that Heraclius had sent for him to come along with a group of the Quraish who were trading in Sha'm, and they came to him. Then Abu Sufyan (RA) mentioned the whole narration and said, "Heraclius asked for the letter of Allah's Apostle (ﷺ) . When the letter was read, its contents were as follows: 'In the name of Allah, the Beneficent, the Merciful. From Muhammad, Allah's slave and His Apostle (ﷺ) to Heraclius, the Chief of Byzantines: Peace be upon him who follows the right path (guidance)! Amma ba'du (to proceed )...' (See Hadith No 6, Vol 1 for details)