باب: کسی جگہ صرف تین آدمی ہوں تو ایک کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: No two persons should talk secretly excluding a third person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے ( سورۃ قد سمع اللہ : ۹، ۰۱میں ) فرمایا مسلمانو! جب تم سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم اور پیغمبرکی نافرمانی پر سرگوشی نہ کیا کروبلکہ نیکی اور پرہیز گاری پر ....آخر آیت ” وعلی اللہ فلیتوکل المومنون “ تک۔اور اللہ نے اس سورت میں مزید فرمایا مسلمانو! جب تم پیغمبرسے سرگوشی کروتو اس سے پہلے کچھ صدقہ نکالا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ ہے اگرتم کو خیرات کرنے کے لئے کچھ نہ ملے تو خیر اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔ آخرآیت ” واللہ خبیر بما تعملون “ تک ۔ ( سورۃ المجادلۃ : ۲۱، ۳۱ )تشریح : یہ آیت بعد کی آیت سے منسوخ ہوگئی، کہتے ہیں کہ اس پر اولین عمل کرنے والے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کیا اوران دونوں آیتوں کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ کانا پھوسی درست ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ گناہ اور ظلم کی بات کے لئے نہ ہو۔
6288.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تین شخص ہوں تو تیسرے سے علیحدہ ہو کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔“
تشریح:
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’یہ سرگوشی تیسرے کو غمناک کرتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6290) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تین شخص ہوں، ان میں سے دو علیحدہ جا کر خفیہ بات کریں تو تیسرے کو یہ فکر لاحق ہوگا کہ وہ اس کے خلاف کوئی سازش ترتیب دے رہے ہیں، اس لیے وہ خواہ مخواہ پریشان اور غمناک ہوگا اور اگر زیادہ لوگ ہوں تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6062
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6288
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6288
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6288
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
اور اللہ پاک نے ( سورۃ قد سمع اللہ : ۹، ۰۱میں ) فرمایا مسلمانو! جب تم سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم اور پیغمبرکی نافرمانی پر سرگوشی نہ کیا کروبلکہ نیکی اور پرہیز گاری پر ....آخر آیت ” وعلی اللہ فلیتوکل المومنون “ تک۔اور اللہ نے اس سورت میں مزید فرمایا مسلمانو! جب تم پیغمبرسے سرگوشی کروتو اس سے پہلے کچھ صدقہ نکالا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ ہے اگرتم کو خیرات کرنے کے لئے کچھ نہ ملے تو خیر اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔ آخرآیت ” واللہ خبیر بما تعملون “ تک ۔ ( سورۃ المجادلۃ : ۲۱، ۳۱ )تشریح : یہ آیت بعد کی آیت سے منسوخ ہوگئی، کہتے ہیں کہ اس پر اولین عمل کرنے والے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کیا اوران دونوں آیتوں کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ کانا پھوسی درست ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ گناہ اور ظلم کی بات کے لئے نہ ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تین شخص ہوں تو تیسرے سے علیحدہ ہو کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔“
حدیث حاشیہ:
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’یہ سرگوشی تیسرے کو غمناک کرتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6290) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تین شخص ہوں، ان میں سے دو علیحدہ جا کر خفیہ بات کریں تو تیسرے کو یہ فکر لاحق ہوگا کہ وہ اس کے خلاف کوئی سازش ترتیب دے رہے ہیں، اس لیے وہ خواہ مخواہ پریشان اور غمناک ہوگا اور اگر زیادہ لوگ ہوں تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اے ایمان والو! جب تم سر گوشی کرو تو (گناہ دشمنی اور رسول کی نافرمانی پر) سرگوشی نہ کرو۔ ۔ ۔ (اگر تم) مومن ہو“۔ نیز فرمان الہی ہے: ”اے ایمان والو! جب تم رسول سے سر گوشی کرو تو سر گوشی سے پہلے صدقہ کیا کرو۔ ۔ ۔ ۔ جو تم عمل کرتے ہو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام لک نے خبر دی (دوسری سند) حضرت امام بخاری نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبد اللہ ؓ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم نے فرمایا جب تین آدمی ساتھ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑکر دو آپس میں کانا پھوسی نہ کریں۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت کسی کی صحبت میں بیٹھے تو وہ امانت کی باتیں اپنے دل میں رکھے اور افشاء نہ کرے کہ ان سے اس بھائی کو دکھ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : the Prophet (ﷺ) said "When three persons are together, then no two of them should hold secret counsel excluding the third person."