مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6289.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے ایک راز کی بات کی تھی۔ میں نے آپ کے وہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا تو میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا تھا جس کی وجہ سے میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے پہنچا۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی ایک بات تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ والدہ نے بھی تاکید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی کے سامنے ظاہر مت کرنا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6378(2482)، وفتح الباري: 98/11) (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ راز ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھا کیونکہ اگر دینی یا علمی بات ہوتی تو اس کا چھپانا تو جائز ہی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے وہ راز مراد ہے جس کے ظاہر ہونے سے مسلمان بھائی کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ (فتح الباري:99/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6063
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6289
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6289
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6289
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے ایک راز کی بات کی تھی۔ میں نے آپ کے وہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا تو میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا تھا جس کی وجہ سے میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے پہنچا۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی ایک بات تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ والدہ نے بھی تاکید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی کے سامنے ظاہر مت کرنا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6378(2482)، وفتح الباري: 98/11) (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ راز ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھا کیونکہ اگر دینی یا علمی بات ہوتی تو اس کا چھپانا تو جائز ہی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے وہ راز مراد ہے جس کے ظاہر ہونے سے مسلمان بھائی کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ (فتح الباري:99/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک راز کی بات کہی تھی اور میں نے وہ راز کسی کو نہیں بتایا (ان کی والدہ) حضرت ام سلیم ؓ نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا لیکن میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔
حدیث حاشیہ:
دارمی کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایک کام کے لئے بھیجا تھا جس کی وجہ سے میں اپنی والدہ کے پاس دیر میں پہنچا۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی میں نے کہا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی ایک بات ہے پھر حضرت والدہ نے بھی یہی فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی بات کسی کے سامنے ظاہر نہ کیجيو مگر اس میں وہی راز مراد ہے جس کے ظاہر ہونے سے ایک مسلمان بھائی کو نقصان کا خوف ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) confided to me a secret which I did not disclose to anybody after him. And Um Sulaim asked me (about that secret) but I did not tell her.