Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: To repeat the invocation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6391.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا حتیٰ کہ آپ خیال کرنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے دعا کی۔ پھر آپ نے سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی؟“ سیدہ عائشہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے، پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا: لبید بن اعصم نے یہ حرکت کی ہے۔ وہ جادو کس چیز میں کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی۔ کنگھی سے گرنے والے بالوں اور نر کھجور کے شگوفے میں۔ پوچھا: وہ کہاں ہے؟ بتایا کہ زروان میں ہے اور زروان بنو زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے گئے۔ ”اللہ کی قسم! اس کا پانی تو مہندى کے نچوڑ کی طرح سرخ تھا اور وہاں کھجور کے درخت شیاطین کے سر کی طرح تھے۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے بر ذروان کے متعلق کچھ بیان کیا تو نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالٰی نے شفایاب کر دیا ہے اب میں نہیں چاہتا کہ لوگوں میں ایک شر کو ہوا دوں۔“ عیسیٰ بن یونس اور لیث نے سیدہ ہشام سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے یہ اضافہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ نے دعا کی، پھر دعا مانگی اس طرح نے پوری حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کردہ عنوان ایک دعا کو بار بار عرض کرنے کے متعلق تھا جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے آخر میں حضرت عیسیٰ بن یونس اور امام لیث کے حوالے سے ایک اضافہ بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا مانگی، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (2) ایک حدیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ کم از کم تین مرتبہ اپنی دعا کو دہراتے اور تین، تین دفعہ استغفار کرتے۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1524) بار بار بار دعا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس انداز میں مقام فقر و حاجت اور اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل، عاجزی اور خضوع کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی بہت پسند ہے اور وہ اس کی لاج بھی رکھتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6162
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6391
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6391
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6391
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا حتیٰ کہ آپ خیال کرنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے دعا کی۔ پھر آپ نے سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی؟“ سیدہ عائشہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے، پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا: لبید بن اعصم نے یہ حرکت کی ہے۔ وہ جادو کس چیز میں کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی۔ کنگھی سے گرنے والے بالوں اور نر کھجور کے شگوفے میں۔ پوچھا: وہ کہاں ہے؟ بتایا کہ زروان میں ہے اور زروان بنو زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے گئے۔ ”اللہ کی قسم! اس کا پانی تو مہندى کے نچوڑ کی طرح سرخ تھا اور وہاں کھجور کے درخت شیاطین کے سر کی طرح تھے۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے بر ذروان کے متعلق کچھ بیان کیا تو نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالٰی نے شفایاب کر دیا ہے اب میں نہیں چاہتا کہ لوگوں میں ایک شر کو ہوا دوں۔“ عیسیٰ بن یونس اور لیث نے سیدہ ہشام سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے یہ اضافہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ نے دعا کی، پھر دعا مانگی اس طرح نے پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کردہ عنوان ایک دعا کو بار بار عرض کرنے کے متعلق تھا جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے آخر میں حضرت عیسیٰ بن یونس اور امام لیث کے حوالے سے ایک اضافہ بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا مانگی، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (2) ایک حدیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ کم از کم تین مرتبہ اپنی دعا کو دہراتے اور تین، تین دفعہ استغفار کرتے۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1524) بار بار بار دعا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس انداز میں مقام فقر و حاجت اور اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل، عاجزی اور خضوع کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی بہت پسند ہے اور وہ اس کی لاج بھی رکھتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ آنحضرت ﷺ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ نے فرمایا، تمہیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ عائشہ ؓ نے پوچھا، یا رسول اللہ! وہ خواب کیا ہے؟ فرمایا میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا، ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔ پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبيد بن اعصم نے۔ پوچھا وہ جادو کس چيز ميں ہے؟ جواب ديا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔ پوچھا وہ ہے کہاں؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ ؓ کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا واللہ! اس کا پانی مہدی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔ عیسیٰ بن یونس اور لیث نے ہشام سے اضافہ کیا کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ برابر دعا کرتے رہے اور پھر پوری حدیث کو بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
اسوئہ نبوی سے معلوم ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو شر کی اشاعت سے بھی بچنا لازم ہے۔ اسے اچھالنا، شہرت دينا اسوئہ نبی کے خلاف ہے۔ کاش مدعیان عمل بالسنہ ایسے امور کو بھی یاد رکھیں آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : that Allah's Apostle (ﷺ) was affected by magic, so much that he used to think that he had done something which in fact, he did not do, and he invoked his Lord (for a remedy). Then (one day) he said, "O 'Aisha!) Do you know that Allah has advised me as to the problem I consulted Him about?" 'Aisha (RA) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What's that?" He said, "Two men came to me and one of them sat at my head and the other at my feet, and one of them asked his companion, 'What is wrong with this man?' The latter replied, 'He is under the effect of magic.' The former asked, 'Who has worked magic on him?' The latter replied, 'Labid bin Al-A'sam.' The former asked, 'With what did he work the magic?' The latter replied, 'With a comb and the hair, which are stuck to the comb, and the skin of pollen of a date-palm tree.' The former asked, 'Where is that?' The latter replied, 'It is in Dharwan.' Dharwan was a well in the dwelling place of the (tribe of) Bani Zuraiq. Allah's Apostle (ﷺ) went to that well and returned to 'Aisha (RA), saying, 'By Allah, the water (of the well) was as red as the infusion of Hinna, (1) and the date-palm trees look like the heads of devils.' 'Aisha (RA) added, Allah's Apostle (ﷺ) came to me and informed me about the well. I asked the Prophet, 'O Allah's Apostle, why didn't you take out the skin of pollen?' He said, 'As for me, Allah has cured me and I hated to draw the attention of the people to such evil (which they might learn and harm others with).' " Narrated Hisham's father: 'Aisha (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) was bewitched, so he invoked Allah repeatedly requesting Him to cure him from that magic)." Hisham then narrated the above narration. (See Hadith No. 658, Vol. 7)