باب: نبی کریم ﷺ کا یوں دعا کرنا کہ ” اے اللہ ! میرے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دے
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: "O Allah! Forgive my past and future sins.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6399.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میری خطائیں، میری نادانی کی باتیں، معاملات میں حد سے تجاوز کو معاف کر دے اور خطاؤں اور جو میں نے دانستہ گناہ کیے ہیں سب کو معاف کر دے۔ یہ سب کچھ میریہی طرف سے ہیں۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''امید ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود پر فائز کرے۔''(بنی اسرائیل: 79) نیز فرمایا: ''آپ کی آخرت، اس دنیا سے کہیں بلند مرتبہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔''(الضحیٰ 4-5) چونکہ دعا ایک عبادت بلکہ روح عبادت ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دعائیں مانگی ہیں۔ پھر آپ نے اظہار عبادیت یا امت کو تعلیم دینے کے لیے مذکورہ دعائیں کی ہیں۔ یہ دعائیں اس بنا پر نہیں ہیں کہ واقعی آپ گناہ گار یا خطا کار تھے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے معصوم اور نافرمانی سے مبرا تھے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے۔ (الفتح: 9) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں دوران نماز میں سلام سے پہلے پڑھتے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد پڑھتے تھے۔ ان روایات کے پیش نظر اس امر کا قوی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام سے پہلے اور بعد دونوں مواقع پر یہ دعائیں پڑھتے ہوں۔ (فتح الباري: 236/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6170
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6399
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6399
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6399
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں، پھر آپ کی یہ دعا اظہار عبودیت یا امت کی تعلیم کے لیے تھی۔ تواضع کے لیے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میری خطائیں، میری نادانی کی باتیں، معاملات میں حد سے تجاوز کو معاف کر دے اور خطاؤں اور جو میں نے دانستہ گناہ کیے ہیں سب کو معاف کر دے۔ یہ سب کچھ میریہی طرف سے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''امید ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود پر فائز کرے۔''(بنی اسرائیل: 79) نیز فرمایا: ''آپ کی آخرت، اس دنیا سے کہیں بلند مرتبہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔''(الضحیٰ 4-5) چونکہ دعا ایک عبادت بلکہ روح عبادت ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دعائیں مانگی ہیں۔ پھر آپ نے اظہار عبادیت یا امت کو تعلیم دینے کے لیے مذکورہ دعائیں کی ہیں۔ یہ دعائیں اس بنا پر نہیں ہیں کہ واقعی آپ گناہ گار یا خطا کار تھے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے معصوم اور نافرمانی سے مبرا تھے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے۔ (الفتح: 9) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں دوران نماز میں سلام سے پہلے پڑھتے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد پڑھتے تھے۔ ان روایات کے پیش نظر اس امر کا قوی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام سے پہلے اور بعد دونوں مواقع پر یہ دعائیں پڑھتے ہوں۔ (فتح الباري: 236/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبید اللہ بن عبد المجید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابو اسحاق نے بیان کیا، ان سے ابو بکر بن ابی موسیٰ اور ابوبردہ نے میرا خیال ہے کہ ابو موسیٰ اشعری ؓ کے حوالہ سے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے ”اے اللہ! میری مغفرت فرما میری خطاؤں میں، میری نادانی میں اور میری کسی معاملہ میں زیادتی میں، ان باتوں میں جن کا تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت کر میرے ہنسی مزاح اور سنجیدگی میں اور میرے ارادہ میں اور یہ سب کچھ میری ہی طرف سے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa Al-Ash'ari (RA) : The Prophet (ﷺ) used to invoke Allah, saying, "Allahumma ighfirli khati'ati wa jahli wa israfi fi amri, wa ma anta a-'lamu bihi minni. Allahumma ighfirli hazali wa jiddi wa khata'i wa amdi, wa kullu dhalika 'indi"