Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: If somebody reaches sixty years of age, he has no right to ask Allah for a new lease of life)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تو پھر اللہ تعالیٰ نے عمر کے بارے میں اس کے لئے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ” کیا ہم تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جو شخص اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا کرلیتا اور تمہارے پاس ڈرانے ولا آیا، پھر بھی تم نے ہوش سے کام نہیں لیا۔
6420.
حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے: ان میں سے ایک دنیا کی محبت اوردوسرے لمبی اُمید ہے۔‘‘ لیث نے یونس سے بیان کیا۔ اور ابن وہب نے بھی یونس سے بیان کیا، انھوں نےابن شہاب سے، انھوں نے کہا: مجھے سعید اور ابوسلمہ نے خبر دی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6192
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6420
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6420
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6420
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس آیت سے پہلے کفار کی جہنم میں چیخ و پکار اور ان کی ایک فریاد کا ذکر ہے کہ وہ جہنم میں چیخ چیخ کر کہیں گے: ''اے ہمارے پروردگار! ہمیں یہاں سے نکال تاکہ ہم نیک عمل کریں ویسے نہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔'' اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس کا حوالہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غوروفکر کر کے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی عذر مانع نہ تھا، اس کے علاوہ تمہارے پاس نبی بھی آئے جنہوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ بھی کر دیا تھا۔ اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہو گا۔ ''اتنی عمر'' سے مراد سن شعور ہے۔ بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آ جاتا ہے، وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں وہ شرعاً مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی مر جائے تو اس کا عذر قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن جس شخص کو شعور کی عمر مل گئی تو اس پر مکمل حجت قائم ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کردہ عنوان بھی یہی ہے۔
تو پھر اللہ تعالیٰ نے عمر کے بارے میں اس کے لئے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ” کیا ہم تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جو شخص اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا کرلیتا اور تمہارے پاس ڈرانے ولا آیا، پھر بھی تم نے ہوش سے کام نہیں لیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے: ان میں سے ایک دنیا کی محبت اوردوسرے لمبی اُمید ہے۔‘‘ لیث نے یونس سے بیان کیا۔ اور ابن وہب نے بھی یونس سے بیان کیا، انھوں نےابن شہاب سے، انھوں نے کہا: مجھے سعید اور ابوسلمہ نے خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا اور تمہارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا؟"
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو صفوان عبد اللہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ہم کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے، دنیا کی محبت اور زندگی کی لمبی امید۔ لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا اور یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا کہ مجھے سعید اور ابو سلمہ نے خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "The heart of an old man remains young in two respects, i.e., his love for the world (its wealth, amusements and luxuries) and his incessant hope."