باب: ایسا کام جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The deed which is done seeking Allah's Countenance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت ہے جو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نقل کی ہے۔
6423.
محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، جو بنو سالم کے ایک فرد ہیں، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: ’’جب کوئی بندہ قیامت کے دن بایں حالت پیش ہوگا کہ اس نے کلمہ لا إلٰه إلا اللہ کا اقرار کیا ہوگا اور اس اقرار سے مقصود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی تو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کو اس پر حرام کردے گا۔‘‘
تشریح:
(1) کلمہ طیبہ کا صحیح اقرار یہ ہے کہ اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے عمل اور عقیدے کو بھی درست رکھا جائے۔ عمل اور عقیدے کی درستی کے بغیر محض زبانی طور پر یہ کلمہ پڑھنا بے کار ہے۔ (2) یہ بھی واضح رہے کہ اس اقرار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننا بھی ضروری ہے۔ رسالت کے تسلیم کیے بغیر اگر کوئی الوہیت کا اقرار کرتا ہے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6194.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6423
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6423
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6423
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جس کام سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مقصود ہو اس پر ضرور ثواب ملے گا، خواہ وہ عام کام ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے سعد! تم جو خرچ بھی اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرو گے اس پر تمہیں اجر ملے گا حتی کہ اگر تم اس نیت سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالو گے تب بھی اللہ کے ہاں اجروثواب کے حق دار ہو گے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 56)
اس باب میں سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت ہے جو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نقل کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، جو بنو سالم کے ایک فرد ہیں، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا: ’’جب کوئی بندہ قیامت کے دن بایں حالت پیش ہوگا کہ اس نے کلمہ لا إلٰه إلا اللہ کا اقرار کیا ہوگا اور اس اقرار سے مقصود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی تو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کو اس پر حرام کردے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) کلمہ طیبہ کا صحیح اقرار یہ ہے کہ اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے عمل اور عقیدے کو بھی درست رکھا جائے۔ عمل اور عقیدے کی درستی کے بغیر محض زبانی طور پر یہ کلمہ پڑھنا بے کار ہے۔ (2) یہ بھی واضح رہے کہ اس اقرار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننا بھی ضروری ہے۔ رسالت کے تسلیم کیے بغیر اگر کوئی الوہیت کا اقرار کرتا ہے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
اس میں حضرت سعد ؓ سے مروی ایک حدیث ہے۔
حدیث ترجمہ:
انہوں نے بیان کیا کہ عتبان بن مالک انصاری ؓ سے میں نے سنا، پھر بنی سالم کے ایک صاحب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا کوئی بندہ جب قیامت کے دن اس حالت میں پیش ہوگا کہ اس نے کلمہ لا إلٰه إلا اللہ کا اقرار کیا ہوگا اور اس سے اس کا مقصود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی تو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کو اس پر حرم کر دے گا۔
حدیث حاشیہ:
کلمہ طیبہ کا صحیح اقرار یہ ہے کہ اس کے مطابق عمل وعقیدہ بھی ہو، ورنہ محض زبانی طورپر کلمہ پڑھنا بیکار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Utban bin Malik Al-Ansari (RA) : who was one of the men of the tribe of Bani Salim: Allah's Apostle (ﷺ) came to me and said, "If anybody comes on the Day of Resurrection who has said: La ilaha illal-lah, sincerely, with the intention to win Allah's Pleasure, Allah will make the Hell-Fire forbidden for him."