Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The humility or modesty or lowliness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6502.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بےشک اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: جس نے میرے کیسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں کے ذریعےسے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھے اتنی پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے بھی مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں۔ میں کسی چیز میں تردد نہیں کرتا جس کو میں کرنے والا ہوتا ہوں، جو مجھے مومن کی جان نکالتے وقت ہوتا ہے، وہ موت کی بوجہ تکلیف پسند نہیں کرتا اور مجھے بھی اسے تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بندہ عین اللہ بن جاتا ہے، نعوذ باللہ جس طرح حلولیہ یا اتحادیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میرا بندہ جب میری عبادت میں غرق ہو جاتا ہے اور محبوبیت کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام ظاہری اور باطنی حواس شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ، پاؤں، کان اور آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فعل بھی خلاف شریعت سرزد نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال مذکورہ کمالات فرائض اور نوافل کی ادائیگی اور ان کی برکات سے حاصل ہوتے ہیں۔ (2) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل سے اللہ تعالیٰ کا قرب وہی انسان حاصل کر سکتا ہے جو انتہائی متواضع اور منکسر المزاج ہو، متکبر آدمی یہ منصب نہیں حاصل کر سکتا، نیز اس حدیث میں اولیاء اللہ کی دشمنی اور عداوت سے منع کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے محبت کی جائے۔ اور تمام اولیاء سے وہی انسان محبت کرتا ہے جس میں تواضع اور انکسار ہو کیونکہ کچھ اولیاء غبار آلود اور پراگندہ بال بھی ہوتے ہیں، ایسی حالت میں ان سے محبت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بیان کرتے ہیں کہ آپ بیمار کی عیادت فرماتے، جنازے کے ساتھ جاتے، غلام کی دعوت قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر سے لڑائی کے دن آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور جنگ خیبر کے موقع پر بھی آپ ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی رسی کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کھجور کے پتوں کی زین تھی۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4178)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6273
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6502
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6502
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6502
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
تواضع کے معنی ہیں: اپنے مرتبے سے کم تر مرتبے کا اظہار۔ یہ تمام اخلاق حسنہ کا اصل الاصول ہے۔ اگر تواضع نہ ہو تو کوئی عبادت نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ حدیث میں ہے: ''جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند کر دیتا ہے۔'' (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بےشک اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: جس نے میرے کیسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں کے ذریعےسے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھے اتنی پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے بھی مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں۔ میں کسی چیز میں تردد نہیں کرتا جس کو میں کرنے والا ہوتا ہوں، جو مجھے مومن کی جان نکالتے وقت ہوتا ہے، وہ موت کی بوجہ تکلیف پسند نہیں کرتا اور مجھے بھی اسے تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بندہ عین اللہ بن جاتا ہے، نعوذ باللہ جس طرح حلولیہ یا اتحادیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میرا بندہ جب میری عبادت میں غرق ہو جاتا ہے اور محبوبیت کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام ظاہری اور باطنی حواس شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ، پاؤں، کان اور آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فعل بھی خلاف شریعت سرزد نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال مذکورہ کمالات فرائض اور نوافل کی ادائیگی اور ان کی برکات سے حاصل ہوتے ہیں۔ (2) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل سے اللہ تعالیٰ کا قرب وہی انسان حاصل کر سکتا ہے جو انتہائی متواضع اور منکسر المزاج ہو، متکبر آدمی یہ منصب نہیں حاصل کر سکتا، نیز اس حدیث میں اولیاء اللہ کی دشمنی اور عداوت سے منع کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے محبت کی جائے۔ اور تمام اولیاء سے وہی انسان محبت کرتا ہے جس میں تواضع اور انکسار ہو کیونکہ کچھ اولیاء غبار آلود اور پراگندہ بال بھی ہوتے ہیں، ایسی حالت میں ان سے محبت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بیان کرتے ہیں کہ آپ بیمار کی عیادت فرماتے، جنازے کے ساتھ جاتے، غلام کی دعوت قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر سے لڑائی کے دن آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور جنگ خیبر کے موقع پر بھی آپ ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی رسی کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کھجور کے پتوں کی زین تھی۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4178)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں محدثین نے کلام کیا ہے اوراس کے راوی خالد بن مخلد کو منکر الحدیث کہا ہے۔ میں وحید الزماں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر نے اس کے دوسرے طریق بھی بیان کئے ہیں گو وہ اکثر ضعیف ہیں۔ مگر یہ سب طریق مل کر حدیث حسن ہو جاتی ہے اورخالد بن مخلد کو ابوداؤ دنے صدوق کہا ہے (وحیدی) اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بندہ عین خدا ہو جاتا ہے جیسے معاذاللہ اتحادیہ اورحلولیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ میری عبادت میں غر ق ہو جاتا ہے اور مرتبہ محبوبیت پر پہنچتا ہے تواس کے حواس ظاہری وباطنی سب شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں وہ ہاتھ پاؤں کان آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں میری مرضی ہے۔ خلاف شریعت اس سے کوئی کام سرزد نہیں ہوتا۔ (اور اللہ کی عبادت میں کسی غیرکو شریک کرنا شرک ہے جس کا ارتکاب موجب دخول نار ہے۔ توحید اورشریعت کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے تقویۃ الایمان کا مطالعہ کرنا چائیے عربی حضرات ”الدین الخالص“ کا مطالعہ کریں۔ وباللہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah said, 'I will declare war against him who shows hostility to a pious worshipper of Mine. And the most beloved things with which My slave comes nearer to Me, is what I have enjoined upon him; and My slave keeps on coming closer to Me through performing Nawafil (praying or doing extra deeds besides what is obligatory) till I love him, so I become his sense of hearing with which he hears, and his sense of sight with which he sees, and his hand with which he grips, and his leg with which he walks; and if he asks Me, I will give him, and if he asks My protection (Refuge), I will protect him; (i.e. give him My Refuge) and I do not hesitate to do anything as I hesitate to take the soul of the believer, for he hates death, and I hate to disappoint him."