Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The gathering (on the Day of Resurrection))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6529.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے آدم کو پکارا جائے گا تو ان کی اولاد انہیں دیکھے گی، کہا جائے گا: یہ تمہارے باپ آدم ہیں۔ حضرت آدم جواب دیں گے میں سعادت مندی کےساتھ حاضر ہوں۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ الگ کر دو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے: اے پروردگار! کس نسبت سے الگ کر دوں؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: ”سو میں سے ننانوے“ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے ننانوے فیصد نکال لیے جائیں گے تو باقی کیا بچے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں، سیاہ بیل میں سفید بال کی طرح ہوگی۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تسلی دی کہ اگر ننانوے فی صد بھی جہنم میں جائیں تو تمہیں فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ایک فیصد حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں تمام سچے مسلمان آ جائیں گے بلکہ اس میں دوسری امتوں کے مُوحد (توحید پرست) شخص بھی ہوں گے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل دوزخ کی تعداد اہل جنت کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو گی، اس کے باوجود جہنم مزید کا مطالبہ کرے گی جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ جہنم سے فرمائے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ تو وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے۔‘‘ (ق:30/50) حدیث میں ہے کہ جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو جہنم یہی کہتی رہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟ حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھ دے گا۔ اس وقت وہ کہے گی بس بس (میں بھر گئی)۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4848) اسی طرح جب سب جنتی جنت میں چلے جائیں گے تو جنت میں بہت سی جگہ خالی پڑی ہو گی، اللہ تعالیٰ اسے بھرنے کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا تو اس سے جنت کو بھرے گا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4850) (3) بہرحال قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی امیدوں سے بڑھ کر دے گا جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔‘‘ (الضحیٰ:93/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6300
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6529
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6529
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6529
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حشر کی چار قسمیں ہیں: دو کا تعلق عالم دنیا سے ہے جبکہ دو آخرت میں ہوں گے۔ جو حشر دنیا میں ہوں گے۔ ان میں پہلا حشر سورۂ حشر میں بیان ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔'' (الحشر: 59/2) دوسرا حشر اس وقت ہو گا جب قرب قیامت میں مشرق سے آگ برآمد ہو گی جو لوگوں کو مغرب کی طرف لے جائے گی جس کا ذکر آئندہ احادیث میں آئے گا۔ جو دو حشر عالم آخرت میں ہوں گے ان میں سے پہلا حشر اس وقت ہو گا جب مُردوں کو قبروں سے زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے میدان محشر میں پیش کیا جائے گا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے: ''ہم لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔'' (الکھف: 18/47) آخری حشر اس وقت ہو گا جب فرشتے اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو دوزخ میں لے جائیں گے اس کا ذکر سورۂ زمر آیت: 71-73 میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان میں پہلا حشر کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ اس قسم کا حشر کئی مرتبہ مختلف قوموں اور لوگوں کے متعلق ہوا ہے۔ (فتح الباری: 11/460)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے آدم کو پکارا جائے گا تو ان کی اولاد انہیں دیکھے گی، کہا جائے گا: یہ تمہارے باپ آدم ہیں۔ حضرت آدم جواب دیں گے میں سعادت مندی کےساتھ حاضر ہوں۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ الگ کر دو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے: اے پروردگار! کس نسبت سے الگ کر دوں؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: ”سو میں سے ننانوے“ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے ننانوے فیصد نکال لیے جائیں گے تو باقی کیا بچے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں، سیاہ بیل میں سفید بال کی طرح ہوگی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تسلی دی کہ اگر ننانوے فی صد بھی جہنم میں جائیں تو تمہیں فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ایک فیصد حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں تمام سچے مسلمان آ جائیں گے بلکہ اس میں دوسری امتوں کے مُوحد (توحید پرست) شخص بھی ہوں گے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل دوزخ کی تعداد اہل جنت کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو گی، اس کے باوجود جہنم مزید کا مطالبہ کرے گی جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ جہنم سے فرمائے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ تو وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے۔‘‘ (ق:30/50) حدیث میں ہے کہ جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو جہنم یہی کہتی رہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟ حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھ دے گا۔ اس وقت وہ کہے گی بس بس (میں بھر گئی)۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4848) اسی طرح جب سب جنتی جنت میں چلے جائیں گے تو جنت میں بہت سی جگہ خالی پڑی ہو گی، اللہ تعالیٰ اسے بھرنے کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا تو اس سے جنت کو بھرے گا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4850) (3) بہرحال قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی امیدوں سے بڑھ کر دے گا جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔‘‘ (الضحیٰ:93/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے ثور نے، ان سے ابوالغیث نے، ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت آدم ؑ کو پکارا جائے گا۔ پھر ان کی نسل ان کو دیکھے گی تو کہا جائے گا کہ یہ تمہارے بزرگ دادا آدم ہیں۔ (پکارنے پر) وہ کہیں گے کہ لبیک و سعدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ نکال لو۔ آدم ؑ عرض کریں گے اے پروردگار! کتنوں کو نکالوں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا فیصد (ننانوے فیصد دو زخمی ایک جنتی) صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب ہم میں سو میں ننانوے نکال دئیے جائیں تو پھر باقی کیا رہ جائیں گے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمام امتوں میں میری امت اتنی ہی تعداد میں ہوگی جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس لیے اگر ننانوے فیصدی بھی دوزخ میں جائیں تو تم کو فکر نہ کرنا چاہئے ایک فیصد آدم علیہ السلام کی اولاد میں سارے سچے مسلمان آجائیں گے۔ بلکہ دوسری امتوں کے موحد اشخاص بھی ہوں گے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ دوزخ کی مردم شماری جنت کی مردم شماری سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "The first man to be called on the Day of Resurrection will be Adam who will be shown his offspring, and it will be said to them, 'This is your father, Adam.' Adam will say (responding to the call), 'Labbaik and Sa'daik' Then Allah will say (to Adam), 'Take out of your offspring, the people of Hell.' Adam will say, 'O Lord, how many should I take out?' Allah will say, 'Take out ninety-nine out of every hundred." They (the Prophet's companions) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! If ninety-nine out of every one hundred of us are taken away, what will remain out of us?" He said, "My followers in comparison to the other nations are like a white hair on a black ox."