Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The description of Paradise and the Fire)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
6549.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالٰی اہل جنت سے فرمائے گا: اے اہل جنت! وہ (جنتی) عرض کریں گے۔ ہم تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ اللہ تعالٰی پوچھے گا: کیا تم لوگ اب خوش ہوگئے؟ وہ عرض کریں گے: ہم کیوں خوش نہ ہوں جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے اور کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”میں تمہیں اس سے بہتر نعمت عطا کرتا ہوں۔‘‘ وہ (جنتی) کہیں گے۔ اے اللہ ! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: میں نے تمہارے لیے اپنی رضا کو حلال کر دیا ہے اب میں تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔“
تشریح:
(1) جنت اور اس کی تمام نعمتیں عطا فرمانے کے بعد رب کریم کا اپنے بندوں سے پوچھنا کہ ’’تم راضی اور مطمئن ہو‘‘ بجائے خود کتنی بڑی نعمت ہے، پھر دائمی رضا کا تحفہ اور کبھی ناراض نہ ہونے کا اعلان کتنا بڑا انعام اور احسان ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضا، جنت اور اس کی تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالاتر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کی طرف سے تھوڑی سی رضا اور خوشنودی سب سے بڑی (نعمت) ہے۔‘‘(التوبة: 72/9) (2) اہل جنت کے لیے ایک دوسرا اعلان بھی ہو گا جو اس سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ اس کے علاوہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اہل جنت، جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک مزید چیز عطا کروں؟ اہل جنت عرض کریں گے: اے اللہ! تو نے ہمارے چہرے روشن کیے اور دوزخ سے بچا کر ہمیں جنت میں داخل کیا، اب اس سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندوں کے اس جواب کے بعد یکایک حجاب اٹھ جائے گا تو وہ اپنے پروردگار کا دیدار کر رہے ہوں گے، پھر انہیں محسوس ہو گا کہ جو کچھ اب تک انہیں ملا تھا، اس میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری چیز ان کے لیے یہی دیدار الٰہی ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی: ’’جن لوگوں نے (اس دنیا میں) نیکی اور بندگی والی اچھی زندگی گزاری ان کے لیے اچھی جگہ (جنت) ہے اور (اس پر) مزید ایک نعمت (دیدار الٰہی) ہو گی۔‘‘(یونس: 10/26، و صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 449، 450 (181))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6320
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6549
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6549
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6549
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جنت اور دوزخ کے متعلق دو عنوان کتاب بدء الخلق میں بھی قائم کیے گئے تھے اور ان میں یہ بھی تھا کہ انہیں پیدا کیا جا چکا ہے اور مذکورہ باب کی بیشتر احادیث کو وہاں بیان کیا گیا تھا۔ (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب: 8-10) امام بخاری رحمہ اللہ نے جنت کے مختلف ناموں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں دس حسب ذیل ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں ہے: (1) الفردوس (2) دارالسلام (3) دارالخلد (4) دارالمقامة (5) جنة المأوٰي (6) النعيم (7) المقام الأمين (8) جنت عدن (9) مقعد صدق (10) الحسنیٰ۔ (فتح الباری: 11/510)
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالٰی اہل جنت سے فرمائے گا: اے اہل جنت! وہ (جنتی) عرض کریں گے۔ ہم تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ اللہ تعالٰی پوچھے گا: کیا تم لوگ اب خوش ہوگئے؟ وہ عرض کریں گے: ہم کیوں خوش نہ ہوں جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے اور کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”میں تمہیں اس سے بہتر نعمت عطا کرتا ہوں۔‘‘ وہ (جنتی) کہیں گے۔ اے اللہ ! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا: میں نے تمہارے لیے اپنی رضا کو حلال کر دیا ہے اب میں تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جنت اور اس کی تمام نعمتیں عطا فرمانے کے بعد رب کریم کا اپنے بندوں سے پوچھنا کہ ’’تم راضی اور مطمئن ہو‘‘ بجائے خود کتنی بڑی نعمت ہے، پھر دائمی رضا کا تحفہ اور کبھی ناراض نہ ہونے کا اعلان کتنا بڑا انعام اور احسان ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضا، جنت اور اس کی تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالاتر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کی طرف سے تھوڑی سی رضا اور خوشنودی سب سے بڑی (نعمت) ہے۔‘‘(التوبة: 72/9) (2) اہل جنت کے لیے ایک دوسرا اعلان بھی ہو گا جو اس سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ اس کے علاوہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اہل جنت، جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک مزید چیز عطا کروں؟ اہل جنت عرض کریں گے: اے اللہ! تو نے ہمارے چہرے روشن کیے اور دوزخ سے بچا کر ہمیں جنت میں داخل کیا، اب اس سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندوں کے اس جواب کے بعد یکایک حجاب اٹھ جائے گا تو وہ اپنے پروردگار کا دیدار کر رہے ہوں گے، پھر انہیں محسوس ہو گا کہ جو کچھ اب تک انہیں ملا تھا، اس میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری چیز ان کے لیے یہی دیدار الٰہی ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی: ’’جن لوگوں نے (اس دنیا میں) نیکی اور بندگی والی اچھی زندگی گزاری ان کے لیے اچھی جگہ (جنت) ہے اور (اس پر) مزید ایک نعمت (دیدار الٰہی) ہو گی۔‘‘(یونس: 10/26، و صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 449، 450 (181))
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کا ٹکڑا ہوگا۔“عدن کے معنی ہیں:ہمیشہ رہنا۔ کہا جاتا ہے۔ عدنت بارض میں نے اس جگہ قیام کیا۔ لفظ معدن بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ (فی مقعد صدق) کے معنیٰ ہیں: سچائی پیدا ہونے کی جگہ میں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں عطاء بن یسار نے اور ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیوں کہ اب تو تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کر دوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم، لطف و عنایت سے یہ شرف و فضیلت ہم کو عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah will say to the people of Paradise, 'O the people of Paradise!' They will say, 'Labbaik, O our Lord, and Sa'daik!' Allah will say, 'Are you pleased?" They will say, 'Why should we not be pleased since You have given us what You have not given to anyone of Your creation?' Allah will say, 'I will give you something better than that.' They will reply, 'O our Lord! And what is better than that?' Allah will say, 'I will bestow My pleasure and contentment upon you so that I will never be angry with you after for-ever.' "