Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Regarding Al-Haud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں فرمایا ” بلاشبہ ہم نے آپ کو کوثر دیا “ اور عبداللہ بن زید مازنی نے بیان کیا کہ نبیﷺنے انصار سے فرمایا کہ تم اس وقت تک صبر کئے رہنا کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔تشریح:حوض کوثر جنت کی ایک نہر ہے کوثر کا یہی معنی صحیح اور مشہور حدیث سے ثابت ہے بعض نے کہا ہے کہ خیر کثیر مراد ہے کوثر وہ حوض ہے جو قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کو ملے گا آپ کی امت کے لوگ اس سے پانی پئیں گے اس بارے میں صحیح یہی ہے کہ پل صراط سے گزرنے سے پہلے ہی جنتی پانی پئیں گے کیونکہ پہلے قبروں سے پیاسے اٹھیں گے لیکن حضرت امام بخاری جو اس باب کو پل صراط کے بعد لائے ہیں اس سے یہ نکلتا ہے کہ پل صراط سے گزرنے کے بعد اس میں سے پیئں گے اور ترمذی نے حضرت انس سے جو روایت کی ہے اس سے بھی یہی نکلتا ہے اس میں یہ ہے کہ انس ؓ نے آپ سے شفاعت چاہی آپ نے وعدہ فرمایا ۔ اس نے کہا اس دن آپ کہاں ملیں گے فرمایا کہ پہلے مجھ کو پل صراط کے پاس دیکھنا ‘ورنہ پھر ترازو کے پاس اگر وہاں بھی نہ پاسکو تو حوض کوثر کے پاس دیکھنا ایک حدیث میں ہے کہ ہر پغمبر کو ایک حوض ملے گا جس میں وہ اپنی امت والوں کو پانی پلائے گا اور لکڑی لئے وہیں کھڑا رہے گا سند میں مذکور حضرت عبداللہ بن زید مازنی انصاری صحابی ہیں جو جنگ احد میں شریک ہوئے اور جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کو وحشی بن حرب کے ساتھ مل کر قتل کرنے میں یہ عبداللہ شریک تھے 73ھ میں حرہ کر لڑائی میں یہ 72سال کی عمر میں شہید ہوئے ؓ
6577.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تمہارے سامنے ہی میرا حوض ہوگا۔ وہ اتنا بڑا ہے جتنا جرباء اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔“
تشریح:
(1) جرباء اور اذرح شام کے علاقے میں دو گاؤں ہیں جن کے درمیان تین دن کی مسافت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ جتنا فاصلہ ایلہ اور صنعاء میں ہے، تیسری حدیث میں ہے جتنا فاصلہ مدینہ اور صنعاء میں ہے، چوتھی حدیث میں ہے جتنا فاصلہ ایلہ سے عدن تک ہے، پانچویں حدیث میں ہے جتنا فاصلہ ایلہ سے جحفه تک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ان مسافتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ لوگ جو جو مقام جانتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیان فرمائے۔ (2) ممکن ہے کہ کسی حدیث میں حوض کے طول اور کسی میں اس کے عرض کا بیان ہو۔ یہ سب مقام قریب قریب ایک ہی فاصلہ رکھتے ہیں، یعنی آدھے ماہ کی مسافت یا اس سے کچھ کم و بیش، پھر تیز رفتار سواری اور سست رفتار سواری کے اعتبار سے بھی مسافت میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ (فتح الباري: 574/11) کچھ لوگوں نے اس اختلاف کے پیش نظر حوض کوثر ہی کا انکار کر دیا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں اتنی تعداد میں صحیح حدیثیں ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6345
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6577
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6577
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6577
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حوض کوثر جنت کی ایک نہر ہے۔ قیامت کے دن حوض کوثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے گا۔ آپ کی امت کے لوگ اس سے پانی پئیں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ پل صراط سے گزرنے کے بعد لوگ اس سے پانی نوش کریں گے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احادیث کے پیش نظر اس امر کو ترجیح دی ہے کہ حوض کوثر میدان محشر میں ہو گا۔ (فتح الباری: 11/568) کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو حوض ہیں: ایک میدان محشر میں جس سے پل صراط پر گزرنے سے پہلے لوگ پانی پئیں گے جبکہ قبروں سے پیاسے برآمد ہوں گے اور دوسرا حوض جنت میں ہے۔ واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ کوثر میں فرمایا ” بلاشبہ ہم نے آپ کو کوثر دیا “ اور عبداللہ بن زید مازنی نے بیان کیا کہ نبیﷺنے انصار سے فرمایا کہ تم اس وقت تک صبر کئے رہنا کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔تشریح:حوض کوثر جنت کی ایک نہر ہے کوثر کا یہی معنی صحیح اور مشہور حدیث سے ثابت ہے بعض نے کہا ہے کہ خیر کثیر مراد ہے کوثر وہ حوض ہے جو قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کو ملے گا آپ کی امت کے لوگ اس سے پانی پئیں گے اس بارے میں صحیح یہی ہے کہ پل صراط سے گزرنے سے پہلے ہی جنتی پانی پئیں گے کیونکہ پہلے قبروں سے پیاسے اٹھیں گے لیکن حضرت امام بخاری جو اس باب کو پل صراط کے بعد لائے ہیں اس سے یہ نکلتا ہے کہ پل صراط سے گزرنے کے بعد اس میں سے پیئں گے اور ترمذی نے حضرت انس سے جو روایت کی ہے اس سے بھی یہی نکلتا ہے اس میں یہ ہے کہ انس ؓ نے آپ سے شفاعت چاہی آپ نے وعدہ فرمایا ۔ اس نے کہا اس دن آپ کہاں ملیں گے فرمایا کہ پہلے مجھ کو پل صراط کے پاس دیکھنا ‘ورنہ پھر ترازو کے پاس اگر وہاں بھی نہ پاسکو تو حوض کوثر کے پاس دیکھنا ایک حدیث میں ہے کہ ہر پغمبر کو ایک حوض ملے گا جس میں وہ اپنی امت والوں کو پانی پلائے گا اور لکڑی لئے وہیں کھڑا رہے گا سند میں مذکور حضرت عبداللہ بن زید مازنی انصاری صحابی ہیں جو جنگ احد میں شریک ہوئے اور جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کو وحشی بن حرب کے ساتھ مل کر قتل کرنے میں یہ عبداللہ شریک تھے 73ھ میں حرہ کر لڑائی میں یہ 72سال کی عمر میں شہید ہوئے ؓ
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تمہارے سامنے ہی میرا حوض ہوگا۔ وہ اتنا بڑا ہے جتنا جرباء اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جرباء اور اذرح شام کے علاقے میں دو گاؤں ہیں جن کے درمیان تین دن کی مسافت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ جتنا فاصلہ ایلہ اور صنعاء میں ہے، تیسری حدیث میں ہے جتنا فاصلہ مدینہ اور صنعاء میں ہے، چوتھی حدیث میں ہے جتنا فاصلہ ایلہ سے عدن تک ہے، پانچویں حدیث میں ہے جتنا فاصلہ ایلہ سے جحفه تک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ان مسافتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ لوگ جو جو مقام جانتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیان فرمائے۔ (2) ممکن ہے کہ کسی حدیث میں حوض کے طول اور کسی میں اس کے عرض کا بیان ہو۔ یہ سب مقام قریب قریب ایک ہی فاصلہ رکھتے ہیں، یعنی آدھے ماہ کی مسافت یا اس سے کچھ کم و بیش، پھر تیز رفتار سواری اور سست رفتار سواری کے اعتبار سے بھی مسافت میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ (فتح الباري: 574/11) کچھ لوگوں نے اس اختلاف کے پیش نظر حوض کوثر ہی کا انکار کر دیا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں اتنی تعداد میں صحیح حدیثیں ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے۔“
حضرت عبداللہ بن زید مازنی نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے(انصار سے) فرمایا: ”تم صبر سے کام لینا حتیٰ کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”تمہارے سامنے ہی میرا حوض ہوگا وہ اتنا بڑا ہے جتنا جرباء اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
جرباء اور اذرجاء شام کے ملک میں دو گاؤں ہیں جن میں تین دن کی راہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میرا حوض ایک مہینے کی راہ ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جتنا فاصلہ ایلہ اور صنعاء میں ہے۔ تیسری حدیث میں ہے کہ جتنا فاصلہ مدینہ اور صنعا میں ہے۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ جتنا فاصلہ ایلہ سے عدن تک ہے۔ پانچویں حدیث میں ہے کہ جتنا فاصلہ ایلہ سے جحیفہ تک ہے۔ یہ سب آپ نے تقریباً لوگوں کو سمجھانے کے لیے فرمایا جو جو مقام وہ پہچانتے تھے وہ بیان فرمائے۔ ممکن ہے کسی روایت میں طول کا بیان ہو اور کسی میں عرض کا۔ قسطلانی نے کہا کہ یہ سب مقام قریب قریب ایک ہی فاصلہ رکھتے ہیں یعنی آدھے مہینے کی مسافت یا اس سے کچھ زائد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "There will be a tank (Lake-Fount) in front of you as large as the distance between Jarba and Adhruh (two towns in Sham)."