Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: "Do not swear by your fathers")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6646.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو پایا جبکہ وہ ایک قافلے کے ساتھ چل رہے تھے اور اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آگاہ رہو! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا جو کوئی قسم کھائے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی کھائے یا پھر خاموش رہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6410
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6646
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6646
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6646
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ عنوان دراصل حدیث نبوی ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے باپ دادا، ماؤں اور بتوں کے نام کی قسمیں نہ اٹھاؤ بلکہ صرف اللہ کی قسم کھاؤ۔'' (سنن ابی داود، الایمان والنذور، حدیث: 3248)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو پایا جبکہ وہ ایک قافلے کے ساتھ چل رہے تھے اور اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”آگاہ رہو! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا جو کوئی قسم کھائے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی کھائے یا پھر خاموش رہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب ؓ کے پاس آئے تو وہ سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ چل رہے تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خبردار تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم کھانی ہے اسے (بشرط صدق) چاہئے کہ اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر بن خطاب امیرالمؤمنین کالقب فاروق اورکنیت ابوحفص ہے۔ نسبتا وہ عدوی قریشی ہیں۔ انہوں نے 6 نبوی میں اسلام قبول کیا اور بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ نبوت کے پانچویں سال اسلام قبول کیا جب کہ چالیس مر د اور گیارہ عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں اورکچھ لوگوں نےلکھا ہےکہ مردوں کی چالیس تعداد حضرت عمر کےاسلام لانے سے پوری ہوئی۔ ان کے اسلام لانے سے اسلام کو بڑا غلبہ نصیب ہوا۔ اسی واسطے ان کو فاروق کہا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر فاروق سےدریافت کی کہ آپ کا نام فاروق کب سے ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سےتین دن پہلے حضرت حمزہ ایمان لائے۔ اس کے بعد اللہ نے میرا سینہ کھول دیا تو میں نے اپنی زبان سے کہا ’’اللہ ہی ہے، اس کےعلاوہ کوئی بھی بندگی کے لائق نہیں، اس کے نیک نام ہیں اور زمین میں کوئی ذات میرے نزدیک حضرت محمد ﷺ کی ذات سے زیادہ محبوب نہیں۔ حضرت عمر فرماتے ہیں پھر میں نےسوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں، تو میرے بہن نے جواب دیا کہ وہ ارقم کےمکان میں ہیں، تو میں نے ارقم کے مکان کے پاس گیا۔ جہاں حمزہ اور آپ کے اصحاب حویلی میں بیٹھے تھے اور حضورﷺ گھر میں تھے تو جب میں نے دستک دی تو لوگ نکلے، تو حضرت حمزہ نے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے تومیں نے جواب دیا کہ عمربن خطاب آیا ہے۔ تو آنخضرت ﷺ باہر تشریف لائے اور میرا دامن کھینچا اور پوچھا کہ تو باز آنے والا نہیں ہے۔ تومیں نے کلمہ پڑھا ''أشھد أن لا إله إلا اللہ وحدہ لاشریك له و أشھد أن محمداعبدہ و رسو له'' تو سب حویلی والوں نے اللہ اکبر کانعرہ بلند کیا جس کو مسجد والوں نے سن لیا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں، زندہ رہیں یا مر جائیں۔ تو حضور ﷺ نے جواب دیا کہ اس ذات میں کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بیشک تم دین حق پرہو۔ زندہ رہو یا مر جاؤ۔ تو میں نے کہا کہ ہم چھپ کر کیوں رہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آ پ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، ہم ضرور باہر نکلیں۔ چنانچہ ہم سے حضور ﷺ کو باہر نکلنے کے لیے کہا اور آپ کو دو صفوں میں لے لیا ایک صف میں اور دوسری صف میں حضرت حمزہ تھے۔ اسی طرح ہم مسجدوں میں پہنچے تو ہم لوگوں کو دیکھ کر قریش نے کہا کہ ابھی ایک غم ختم نہیں ہوا کہ دوسرا غم سامنے آ گیا۔ اسی دن سے اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور لوگ مجھ کو فاروق کہنے لگے۔ اس لیے میرے سبب سے اللہ نے حق کو باطل سےجدا کر دیا۔ داؤد بن حصین اور زہر ی فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو حضرت جبریل اترے اور حضو ر علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ حضرت عمر کے اسلام لانے سے آسمان والوں کو خوشی ہوئی۔ اورحضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں حضرت عمر کےعلم سےخوب واقف ہوں، اگر ان کاعلم ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائےاور تمام مخلوق کا دوسرا پلہ میں تو حضرت عمر کا پلہ بھاری ہو جائے اور انہوں نے کہا کہ جب حضرت عمر کی وفات ہوئی تو گویا وہ علم کا ایک بڑا حصہ لے کے گئے۔ حضرت عمر نبی کریم ﷺ کےساتھ تمام جنگوں میں حاضر رہے اور وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کو امیراالمؤمنین کہا گیا۔ ان کی خلافت حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد ہی قائم ہوئی۔ اس لیے کہ صدیق اکبر نے انہیں کے نام کی وصیت کی تھی اور ان کو مغیرہ بن شعبہ کےغلام ابولولو نے بدھ کے روز شہید کیا۔26ھ کو اور اتوار کے روز محرم کے عشرہ اولیٰ 24ھ میں دار آخرت کو تشریف لےگئے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) met 'Umar bin Al-Khattab (RA) while the latter was going with a group of camel-riders, and he was swearing by his father. The Prophet (ﷺ) said, "Lo! Allah forbids you to swear by your fathers, so whoever has to take an oath, he should swear by Allah or keep quiet."