Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: The one who gives an oath regarding something although he has not been asked to give an oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6651.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور آپ نے اسے پہننا شروع کر دیا۔ آپ اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنی انگوٹھی اتار کر فرمایا: ”میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا۔“ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اب میں اسے آئندہ نہیں پہنوں گا۔“ اس کے بعد لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم اپنے قسموں کے لیے اللہ کے نام کو ڈھال نہ بناؤ۔‘‘(البقرة: 224/2) اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھاتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اگر ضرورت ہو تو قسم کھائی جائے، بلاوجہ اور بلا ضرورت قسمیں اٹھانا مستحسن اقدام نہیں ہے، ہاں اگر کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہو تو مطالبے کے بغیر قسم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان کا یہی مقصد ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ سونے کی انگوٹھی کبھی نہیں پہنیں گے، حالانکہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم کھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ (2) دراصل دور جاہلیت میں لوگ لات و عزی اور اپنے باپ دادا کی قسمیں اٹھاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس رسم بد کا خاتمہ تھا اور آپ بکثرت کلام میں اللہ تعالیٰ کی قسم اس لیے کھاتے تھے تاکہ ان پر واضح کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم کھانا جائز نہیں، نیز لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھایا کریں اور دور جاہلیت کی قسموں کو خیر باد کہہ دیں۔ (فتح الباري: 655/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6415
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6651
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6651
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6651
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور آپ نے اسے پہننا شروع کر دیا۔ آپ اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنی انگوٹھی اتار کر فرمایا: ”میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا۔“ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اب میں اسے آئندہ نہیں پہنوں گا۔“ اس کے بعد لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم اپنے قسموں کے لیے اللہ کے نام کو ڈھال نہ بناؤ۔‘‘(البقرة: 224/2) اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھاتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اگر ضرورت ہو تو قسم کھائی جائے، بلاوجہ اور بلا ضرورت قسمیں اٹھانا مستحسن اقدام نہیں ہے، ہاں اگر کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہو تو مطالبے کے بغیر قسم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان کا یہی مقصد ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ سونے کی انگوٹھی کبھی نہیں پہنیں گے، حالانکہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم کھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ (2) دراصل دور جاہلیت میں لوگ لات و عزی اور اپنے باپ دادا کی قسمیں اٹھاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس رسم بد کا خاتمہ تھا اور آپ بکثرت کلام میں اللہ تعالیٰ کی قسم اس لیے کھاتے تھے تاکہ ان پر واضح کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم کھانا جائز نہیں، نیز لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھایا کریں اور دور جاہلیت کی قسموں کو خیر باد کہہ دیں۔ (فتح الباري: 655/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور نبی کریم ﷺ اسے پہنتے تھے، اس کا نگینہ ہتھیلی کے حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں اس کے بعد ایک دن نبی کریم ﷺ منبر پر بیٹھے اور اپنی انگوٹھی اتار دی اور فرمایا کہ میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی جانب رکھتا تھا، پھر آپ ﷺ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم میں اب اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پس لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی غیر شرعی چیز کےچھوڑ دینے پر قسم کھانا جائز ہے کہ اب میں اسے ہاتھ نہیں لگاؤں گا جیسا کہ حدیث سےظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) had a gold ring made for himself, and he used to wear it with the stone towards the inner part of his hand. Consequently, the people had similar rings made for themselves. Afterwards the Prophet; sat on the pulpit and took it off, saying, "I used to wear this ring and keep its stone towards the palm of my hand." He then threw it away and said, "By Allah, I will never wear it." Therefore all the people threw away their rings as well.