Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: Al-Ghamus oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے (سورۃ النحل میں) فرمایا کہ ”اپنی قسموں کو آپس میں فساد کی بنیاد نہ بناؤ اس لیے کہ اسلام پر لوگوں کا قدم جمے اور پھر اکھڑ جائے اور اللہ کی راہ سے روکنے کے بدلے تم کو دوزخ کا عذاب چکھنا پڑے، تم کو سخت سزا دی جائے“۔ اس آیت میں جو «دخلا» کا لفظ ہے اس کے معنی دغا اور فریب کے ہیں۔ «غمس» کے معنی ڈبو دینا۔یہ قسم بھی قسم کھانے والے کو دوزخ کی آگ میں ڈبو دے گی آیت کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ مکروفریب کی قسم پر اس میں سخت وعید ہے ایسا ہی یمین غموس میں بھی سمجھنا چاہیئے یمین غموس دوزخ میں ڈبو دینے والی قسم کو کہتے ہیں۔
6675.
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بڑے گناہ یہ ہیں: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔“
تشریح:
كبائر، كبيرة کی جمع ہے۔ مذکورہ حدیث میں چار کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ بعض روایات میں سات اور بعض میں دس بیان ہوئے ہیں۔ یہ تضاد نہیں کیونکہ ایک عدد کا ذکر دوسرے عدد کے منافی نہیں ہوتا۔ (2) واضح رہے کہ اس قسم میں کفارہ نہیں ہوتا، صرف اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے۔ اگر کسی کا حق مارا ہے تو وہ واپس کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم یمین غموس کو ایسا گناہ شمار کرتے تھے جو کفارے سے بھی نہیں دھل سکتا۔ یمین غموس یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے۔ اس امر میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی۔ (فتح الباري: 679/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6438
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6675
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6675
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6675
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
کسی واقعے کے بارے میں جانتے ہوئے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھا کر کہہ دینا کہ ایسا نہیں ہے، اسے یمین غموس کہتے ہیں کیونکہ اس قسم سے انسان جہنم میں ڈوب جاتا ہے۔ مذکورہ آیت کی یمین غموس سے یہ مناسبت ہے کہ مکروفریب کی قسم پر جو وعید مذکورہ آیت میں ہے وہی وعید یمین غموس کے متعلق ہے کیونکہ یمین غموس بھی دوزخ میں ڈبو دینے والی قسم کو کہتے ہیں۔ جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی مفادات کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی کسی کا حق مارنے کے لیے اس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بہرحال شریعت میں اس قسم کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں بیان ہو گا۔
اور اللہ نے (سورۃ النحل میں) فرمایا کہ ”اپنی قسموں کو آپس میں فساد کی بنیاد نہ بناؤ اس لیے کہ اسلام پر لوگوں کا قدم جمے اور پھر اکھڑ جائے اور اللہ کی راہ سے روکنے کے بدلے تم کو دوزخ کا عذاب چکھنا پڑے، تم کو سخت سزا دی جائے“۔ اس آیت میں جو «دخلا» کا لفظ ہے اس کے معنی دغا اور فریب کے ہیں۔ «غمس» کے معنی ڈبو دینا۔یہ قسم بھی قسم کھانے والے کو دوزخ کی آگ میں ڈبو دے گی آیت کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ مکروفریب کی قسم پر اس میں سخت وعید ہے ایسا ہی یمین غموس میں بھی سمجھنا چاہیئے یمین غموس دوزخ میں ڈبو دینے والی قسم کو کہتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بڑے گناہ یہ ہیں: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔“
حدیث حاشیہ:
كبائر، كبيرة کی جمع ہے۔ مذکورہ حدیث میں چار کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ بعض روایات میں سات اور بعض میں دس بیان ہوئے ہیں۔ یہ تضاد نہیں کیونکہ ایک عدد کا ذکر دوسرے عدد کے منافی نہیں ہوتا۔ (2) واضح رہے کہ اس قسم میں کفارہ نہیں ہوتا، صرف اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے۔ اگر کسی کا حق مارا ہے تو وہ واپس کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم یمین غموس کو ایسا گناہ شمار کرتے تھے جو کفارے سے بھی نہیں دھل سکتا۔ یمین غموس یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے۔ اس امر میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی۔ (فتح الباري: 679/11)
ترجمۃ الباب:
(ارشاد باری تعالٰی ہے:) تم اپنی قسموں کو باہمی معاملات میں دھوکا دینے کا ذریعہ نہ بناو۔ ورنہ قدم جم جانے کے بعد(اسلام سے) پھسل جائیں گے۔ دخلا کے معنیٰ ہیں: دغا اور فریب کا ذریعہ۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو نضر نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، کہا ہم سے فراس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کی ناحق جان لینا اور «يمين الغموس» قصداً جھوٹی قسم کھانے کو کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA) (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "The biggest sins are: To join others in worship with Allah; to be undutiful to one's parents; to kill somebody unlawfully; and to take an oath Al-Ghamus.