باب: کیا قسموں اور نذروں میں زمین ، بکریاں ، کھیتی اور سامان بھی آتے ہیں ؟
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: Can the land, sheep, farms and one's belongings be included in vows and oaths?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ` مجھے ایسی زمین مل گئی ہے کہ کبھی اس سے عمدہ مال نہیں ملا تھا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اصل زمین اپنے پاس رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ ابوطلحہ ؓنے نبی کریم ﷺسے عرض کی، بیرحاء نامی باغ مجھے اپنے تمام اموال میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے ایک باغ تھا۔حضرت امام بخاری نے اس کو ترجیح دی ہےکہ داخل ہوں گےحضرت ابو طلحہ نےباغ مال کہا ہے
6707.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہم نے سونے اور چاندی کی غنیمت نہ پائی بلکہ دیگر اموال یعنی چوپائے کپڑے اور سامان وغیرہ حاصل کیا۔ قبیلہ بنو ضہیب کے ایک آدمی نے جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ کو ایک غلام کا ہدیہ پیش کیا جسے مدعم کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے وادی القری بھیجا۔ وادی القری پہنچ کر وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اس کی پشت پر اچانک ایک تیر لگا جس کے مارنے والے کا علم نہ ہو سکا۔ اس تیر نے مدعم کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت سے چرا لیا تھا اس پر آگ بن کر بھڑک رہا ہے۔“ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ آگ کے ایک یا دو تسمے ہیں۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ مال کا اطلاق کپڑوں اور سامان پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں وہاں مال غنیمت کے طور پر سونا چاندی نہیں بلکہ اموال، یعنی مویشی، کپڑے اور دیگر سامان ملا تھا، پھر انہی اموال میں سے وہ کمبل تھا جسے مدعم نے چوری کر لیا تھا اور وہ چپل کے تسمے بھی انہی اموال کا حصہ تھے جو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وعید سن کر پیش کیے تھے۔ (2) دراصل مال کے اطلاق میں علماء کے مختلف اقوال ہیں: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مال کا اطلاق صرف اس مملوکہ چیز پر ہوتا ہے جس میں زکاۃ فرض ہے جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک ہر مملوکہ چیز پر مال کا اطلاق ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اسی امر کی طرف ہے کہ ہر چیز مملوکہ کو مال کہا جاتا ہے، اس کے متعلق نذر بھی مانی جا سکتی ہے، پھر آپ نے مختلف احادیث پیش کی ہیں جن میں ہر مملوکہ چیز پر مال کا اطلاق ہوا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6469
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6707
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6707
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6707
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان میں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہر مملوک چیز پر مال کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ وہ سونا چاندی ہو یا زمین اور کپڑے وغیرہ ہوں۔ اگر کوئی قسم اٹھاتا ہے یا نذر مانتا ہے کہ میرا یہ مال صدقہ یا نذر ہے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف وہ مال مراد ہو گا جس کا صدقہ دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک مال کا اطلاق صرف سونے چاندی پر ہوتا ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی نذر اس کی تمام مملوکہ اشیاء کو شامل ہو گی کیونکہ ان کے نزدیک ہر مملوکہ چیز پر مال کا لفظ بولا جاتا ہے، خواہ وہ سونا چاندی ہو یا سامان اور زمین وغیرہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان امام مالک رحمہ اللہ کے موقف کی تائید کرتا ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین پر مال کا اطلاق کیا اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے باغ کو مال کہا۔
´عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ` مجھے ایسی زمین مل گئی ہے کہ کبھی اس سے عمدہ مال نہیں ملا تھا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اصل زمین اپنے پاس رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ ابوطلحہ ؓنے نبی کریم ﷺسے عرض کی، بیرحاء نامی باغ مجھے اپنے تمام اموال میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے ایک باغ تھا۔حضرت امام بخاری نے اس کو ترجیح دی ہےکہ داخل ہوں گےحضرت ابو طلحہ نےباغ مال کہا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہم نے سونے اور چاندی کی غنیمت نہ پائی بلکہ دیگر اموال یعنی چوپائے کپڑے اور سامان وغیرہ حاصل کیا۔ قبیلہ بنو ضہیب کے ایک آدمی نے جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ کو ایک غلام کا ہدیہ پیش کیا جسے مدعم کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے وادی القری بھیجا۔ وادی القری پہنچ کر وہ رسول اللہ ﷺ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اس کی پشت پر اچانک ایک تیر لگا جس کے مارنے والے کا علم نہ ہو سکا۔ اس تیر نے مدعم کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت سے چرا لیا تھا اس پر آگ بن کر بھڑک رہا ہے۔“ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ آگ کے ایک یا دو تسمے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ مال کا اطلاق کپڑوں اور سامان پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں وہاں مال غنیمت کے طور پر سونا چاندی نہیں بلکہ اموال، یعنی مویشی، کپڑے اور دیگر سامان ملا تھا، پھر انہی اموال میں سے وہ کمبل تھا جسے مدعم نے چوری کر لیا تھا اور وہ چپل کے تسمے بھی انہی اموال کا حصہ تھے جو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وعید سن کر پیش کیے تھے۔ (2) دراصل مال کے اطلاق میں علماء کے مختلف اقوال ہیں: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مال کا اطلاق صرف اس مملوکہ چیز پر ہوتا ہے جس میں زکاۃ فرض ہے جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک ہر مملوکہ چیز پر مال کا اطلاق ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اسی امر کی طرف ہے کہ ہر چیز مملوکہ کو مال کہا جاتا ہے، اس کے متعلق نذر بھی مانی جا سکتی ہے، پھر آپ نے مختلف احادیث پیش کی ہیں جن میں ہر مملوکہ چیز پر مال کا اطلاق ہوا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
عبداللہ بن عمر ؓنے کہا: حضرت عمر ؓنے نبی ﷺسے کہا: مجھے ایسی زمین مل گئی ہے کہ میں نے کبھی اس سے عمدہ مال نہیں پایا۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”اگر چاہو تو اصل زمین اپنے پاس رکھو اور اس کی پیداوار صدقہ کردو۔“حضرت ابو طلحہ ؓ نےنبی ﷺسے کہا: بیرحاء نامی باغ مجھے اپنے تمام اموال سے زیادہ پسند ہے یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید دیلی نے بیان کیا، ان سے ابن مطیع کے غلام ابوالغیث نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے۔ اس لڑائی میں ہمیں سونا، چاندی غنیمت میں نہیں ملا تھا بلکہ دوسرے اموال، کپڑے اور سامان ملا تھا۔ پھر بنی ضبیب کے ایک شخص رفاعہ بن زید نامی نے نبی کریم ﷺ کو ایک غلام ہدیہ میں دیا غلام کا نام مدعم تھا۔ پھر نبی کریم ﷺوادی قریٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور جب آپ وادی القریٰ میں پہنچ گئے تو مدعم کو جب کہ وہ نبی کریم ﷺ کا کجاوہ درست کر رہا تھا۔ ایک انجان تیر آ کر لگا اور اس کی موت ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ جنت اسے مبارک ہو، لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ کمبل جو اس نے تقسیم سے پہلے خیبر کے مال غنیمت میں سے چرا لیا تھا، وہ اس پر آگ کا انگارہ بن کر بھڑک رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چپل کا تسمہ یا دو تسمے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ آگ کا تسمہ ہے یا دو تسمے آگ کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں اونٹ بکریوں وغیرہ کو بھی لفظ اموال سے تعبیر کیا گیا ہے اسی سے باب کا مطلب نکلا اور یہ بھی نکلا کہ خیانت اور چوری ایسے گناہ ہیں جن کی مجاہد کےلیے بھی بخشش نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : We went out in the company of Allah's Apostle (ﷺ) on the day of (the battle of) Khaibar, and we did not get any gold or silver as war booty, but we got property in the form of things and clothes. Then a man called Rifa'a bin Zaid, from the tribe of Bani Ad-Dubaib, presented a slave named Mid'am to Allah's Apostle. Allah's Apostle (ﷺ) headed towards the valley of Al-Qura, and when he was in the valley of Al-Qura an arrow was thrown by an unidentified person, struck and killed Mid'am who was making a she-camel of Allah's Apostle (ﷺ) kneel down. The people said, "Congratulations to him (the slave) for gaining Paradise." Allah's Apostle (ﷺ) said, "No! By Him in Whose Hand my soul is, for the sheet which he stole from the war booty before its distribution on the day of Khaibar, is now burning over him." When the people heard that, a man brought one or two Shiraks (leather straps of shoes) to the Prophet. The Prophet (ﷺ) said, "A Shirak of fire, or two Shiraks of fire."