باب : لڑکے کی میراث اس کے باپ اور ماں کی طرف سے کیاہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: Inheritance of the offspring from dead fathers and mothers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوی( ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے اور شرکاءکو دیا جائے گا اور جوباقی رہے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
6733.
حضرت سعد ابن وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوا کہ مجھے موت نظر آنے لگی نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سا مال ہے جبکہ میری وارث صرف بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہ“ میں نے پوچھا: پھر ںصف مال صدقہ کر دوں؟فرمایا: ”نہ“ میں نے عرض کی: کیا ایک تہائی کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ گو تہائی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔ اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے تو یہ بھی موجب اجرو ثواب ہوگا۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تو میرے بعد پیچھے رہ بھی گیا تب بھی جو عمل کرے گا اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہوگی تو اس کےذریعے سے تیرا درجہ اور مرتبہ ہوگا۔ میرے بعد یقیناً زندہ رہو گے یہاں تک کہ تم سے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جبکہ بہت سے لوگ ضرر اٹھائیں گے۔ قابل افسوس تو سعد بن خولہ ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں اس لیے اظہار افسوس کیا کہ ان کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی۔ سفیان نے کہا: سعد بن خولہ قبیلہ بنو عامر بن لؤی کے فرد تھے۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکے سے بیٹی وارث ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے کہ بیٹیوں کی وراثت کو ثابت کیا جائے۔ (2) واضح رہے کہ بیٹیوں کی تین حالتیں ہیں:٭ جب میت کی اولاد سے صرف ایک بیٹی ہو تو اسے جائیداد سے نصف ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیٹی اکیلی ہو تو اسے ساری جائیداد کا آدھا ملے گا۔‘‘(النساء 4: 11) ٭ جب میت کی ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو ساری جائیداد کا دوتہائی لیں گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیٹیاں (دویا) دوسے زیادہ ہوں تو ان کے لیے ترکے میں سے دوتہائی حصہ ہوگا۔‘‘ (النساء 4: 11)٭جب میت کی اولاد لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل ہوتو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ بطور عصبہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں، تمھاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مذکر کو دو مؤنث کےبرابر حصہ دیا جائے جائے۔‘‘(النساء 4 :11) (3)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے عصبات تو موجود تھے، البتہ اس وقت اولاد میں صرف ایک لڑکی تھی، ان کی نفی کو اولاد پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 20/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6494
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6733
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6733
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6733
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں وراثت کے معاملات میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اقوال بنیادی حیثیت رکھتے تھے جبکہ اہل عراق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں،اگرچہ فرائض (وراثت) کے مسائل میں ان حضرات کا کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول سے تین مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔جن کی بنیاد قرآنی آیات ہیں۔تفصیل حسب ذیل ہے:٭مرنے والے (مرد یا عورت) کی ایک بیٹی ہے تو اسے نصف ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر میت کی ایک بیٹی ہے تو اسے نصف ملے گا۔" (النساء 4: 11) ٭اگر دویادو سے زیادہ بیٹیاں ہیں تو انھیں دوتہائی ملے گا،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر وہ لڑکیاں (دویا) دو سے زیادہ ہوں تو انھیں دو تہائی ملے گا۔"(النساء 4: 11) ٭ اگر ان کے ساتھ کوئی لڑکا بھی ہے تو پہلے مقرہ حصہ پانے والوں کو دیا جائے،پھر اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے کہ مردوں کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔"(النساء 4: 11) اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک آدمی فوت ہوا،اس کی ماں،دولڑکے اور ایک لڑکی زندہ ہے تو پہلے ماں کا حصہ نکالا جائے گا جو چھٹا حصہ طے شدہ ہے۔اس کے بعد باقی پانچ حصے اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے،یعنی لڑکوں کو دو،دواور لڑکی کو ایک حصہ مل جائے گا، مثلاً: اگر ترکہ چھ ہزار ہے تو پہلے چھٹا حصہ ایک ہزار ماں کو دیا جائے پھر باقی ماندہ پانچ ہزار اس طرح تقسیم کیا جائے کہ دو،دو ہزار فی لڑکا اور ایک ہزار لڑکی کو دیا جائے۔اسی بات کو آئندہ حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: " مقررہ حصےان کے حق داروں کو دو،جو بچ رہے وہ میت کے زیادہ قریب مرد کے لیے ہے۔"
اور زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوی( ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے اور شرکاءکو دیا جائے گا اور جوباقی رہے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد ابن وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوا کہ مجھے موت نظر آنے لگی نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سا مال ہے جبکہ میری وارث صرف بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہ“ میں نے پوچھا: پھر ںصف مال صدقہ کر دوں؟فرمایا: ”نہ“ میں نے عرض کی: کیا ایک تہائی کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ گو تہائی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔ اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے تو یہ بھی موجب اجرو ثواب ہوگا۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تو میرے بعد پیچھے رہ بھی گیا تب بھی جو عمل کرے گا اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہوگی تو اس کےذریعے سے تیرا درجہ اور مرتبہ ہوگا۔ میرے بعد یقیناً زندہ رہو گے یہاں تک کہ تم سے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جبکہ بہت سے لوگ ضرر اٹھائیں گے۔ قابل افسوس تو سعد بن خولہ ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں اس لیے اظہار افسوس کیا کہ ان کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی۔ سفیان نے کہا: سعد بن خولہ قبیلہ بنو عامر بن لؤی کے فرد تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکے سے بیٹی وارث ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے کہ بیٹیوں کی وراثت کو ثابت کیا جائے۔ (2) واضح رہے کہ بیٹیوں کی تین حالتیں ہیں:٭ جب میت کی اولاد سے صرف ایک بیٹی ہو تو اسے جائیداد سے نصف ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیٹی اکیلی ہو تو اسے ساری جائیداد کا آدھا ملے گا۔‘‘(النساء 4: 11) ٭ جب میت کی ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو ساری جائیداد کا دوتہائی لیں گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیٹیاں (دویا) دوسے زیادہ ہوں تو ان کے لیے ترکے میں سے دوتہائی حصہ ہوگا۔‘‘ (النساء 4: 11)٭جب میت کی اولاد لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل ہوتو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ بطور عصبہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں، تمھاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مذکر کو دو مؤنث کےبرابر حصہ دیا جائے جائے۔‘‘(النساء 4 :11) (3)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے عصبات تو موجود تھے، البتہ اس وقت اولاد میں صرف ایک لڑکی تھی، ان کی نفی کو اولاد پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 20/12)
ترجمۃ الباب:
حضرت زید بن ثابت نے فرمایا: جب کوئی مرد یا عورت ایک بیٹی چھوڑے تو اس کا نصف مال ہے اگر دو یا زیادہ بیٹیاں ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوئی بیٹا بھی ہو تو پہلے وراثت کا آغاز دوسرے شرکاء سے کیا جائے گا اور جو باقی بچے گا اس میں سے بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ( حجۃ الوداع میں) بیمار پڑ گیا اور موت کے قریب پہنچ گیا۔ پھر آنحضرت ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا اس کا کوئی وارث نہیں تو کیا مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصہ کا صدقہ کر دینا چاہئے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا پھر آدھے کا کر دو؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی کا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ گو تہائی بھی بہت ہے، اگر تم اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں تنگدست چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو خرچ بھی کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد تم پیچھے رہ بھی گئے تب بھی جو عمل تم کرو گے اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہوگی تو اس کے ذریعہ درجہ و مرتبہ بلند ہوگا اور غالباً تم میرے بعد زندہ رہو گے اور تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوگا اور بہتوں کو نقصان پہنچے گا۔ قابل افسوس تو سعد ابن خولہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں اس لئے افسوس کا اظہار کیا کہ (ہجرت کے بعد اتفاق سے) ان کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی۔ سفیان نے بیان کیا کہ سعد ابن خولہ ؓ بنی عامر بن لوی کے ایک آدمی تھے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کے لئے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا، وہ وفات نبوی کے بعد کافی دنوں زندہ رہے اور تاریخ اسلام میں ایک عظیم مجاہد اور فاتح کی حیثیت سے نامور ہوئے جیسا کہ کتب تاریخ میں تفصیلات موجود ہیں۔ کچھ اوپر 70 سال کے عمر میں 55 میں انتقال فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'd bin Abi Waqqas (RA) : I was stricken by an ailment that led me to the verge of death. The Prophet (ﷺ) came to pay me a visit. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have much property and no heir except my single daughter. Shall I give two-thirds of my property in charity?" He said, "No." I said, "Half of it?" He said, "No." I said, "One-third of it?" He said, "You may do so) though one-third is also to a much, for it is better for you to leave your off-spring wealthy than to leave them poor, asking others for help. And whatever you spend (for Allah's sake) you will be rewarded for it, even for a morsel of food which you may put in the mouth of your wife." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Will I remain behind and fail to complete my emigration?" The Prophet (ﷺ) said, "If you are left behind after me, whatever good deeds you will do for Allah's sake, that will upgrade you and raise you high. May be you will have long life so that some people may benefit by you and others (the enemies) be harmed by you." But Allah's Apostle (ﷺ) felt sorry for Sa'd bin Khaula as he died in Makkah. (Sufyan, a sub-narrator said that Sa'd bin Khaula was a man from the tribe of Bani 'Amir bin Lu'ai.)