کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : تنبیہ اور تعزیر یعنی حد سے کم سزا کتنی ہونی چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: What punishment may be inflicted on the person so that they may not commit the same sin again, or so that they may learn good manners)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6851.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کون میرے جیسا ہے؟ میں رات بسر کرتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔“ جب لوگ وصال کے روزوں سے باز نہ آئے تو آپ ﷺ نے ایک دن وصال کا روزہ رکھا دوسرے دن پھر وصال کا روزہ رکھا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاند دکھائی نہ دیتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا۔“ یہ آپ نے بطور تنبیہ فرمایا کیونکہ لوگ وصال کے روزے رکھنے پر مصر تھے۔ شعیب یحیٰی بن سعد اور یونس نے زہری سے روایت کرنے میں عقیل کی متابعت کی ہے نیز عبدالرحمن بن خالد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
تشریح:
وصال کے معنی ہیں: دوروزوں کو اس طرح ملانا کہ ان کے درمیان کچھ کھایا پیا نہ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کے طور پر لوگوں کے ساتھ مذکورہ برتاؤ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بھوکا رکھنے سے بھی تنبیہ ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی طرح سے تنبیہ فرمایا کرتے تھے جیسا کہ آپ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’بے شک تم ایسے آدمی ہو جس میں ابھی تک جاہلیت کی خصلت موجود ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:30) مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنے والے کے متعلق فرمایا: ’’اللہ تجھے واپس نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1260(568) مسجد میں تجارت کرنے والے کے متعلق حکم ہے کہ اسے کہا جائے: ’’اللہ تعالیٰ تیری تجارت کو نفع مند نہ کرے۔‘‘ (جامع الترمذي، البیوع، حدیث:1321) لیکن تنبیہ کے لیے طعن وتشنیع، گالی گلوچ اور فحش کلامی جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6606
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6851
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6851
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6851
تمہید کتاب
تمہید باب
حد تعزیر اور تہدید میں فرق یہ ہے کہ جو امر شارع ؑ کی طرف سے معین نہ ہو بلکہ حاکم کی صوابدید پر موقوف ہو اسے تعزیر کہا جاتا ہے اور یہ دس کوڑوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کون میرے جیسا ہے؟ میں رات بسر کرتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔“ جب لوگ وصال کے روزوں سے باز نہ آئے تو آپ ﷺ نے ایک دن وصال کا روزہ رکھا دوسرے دن پھر وصال کا روزہ رکھا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاند دکھائی نہ دیتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا۔“ یہ آپ نے بطور تنبیہ فرمایا کیونکہ لوگ وصال کے روزے رکھنے پر مصر تھے۔ شعیب یحیٰی بن سعد اور یونس نے زہری سے روایت کرنے میں عقیل کی متابعت کی ہے نیز عبدالرحمن بن خالد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
وصال کے معنی ہیں: دوروزوں کو اس طرح ملانا کہ ان کے درمیان کچھ کھایا پیا نہ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کے طور پر لوگوں کے ساتھ مذکورہ برتاؤ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بھوکا رکھنے سے بھی تنبیہ ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی طرح سے تنبیہ فرمایا کرتے تھے جیسا کہ آپ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’بے شک تم ایسے آدمی ہو جس میں ابھی تک جاہلیت کی خصلت موجود ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:30) مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنے والے کے متعلق فرمایا: ’’اللہ تجھے واپس نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1260(568) مسجد میں تجارت کرنے والے کے متعلق حکم ہے کہ اسے کہا جائے: ’’اللہ تعالیٰ تیری تجارت کو نفع مند نہ کرے۔‘‘ (جامع الترمذي، البیوع، حدیث:1321) لیکن تنبیہ کے لیے طعن وتشنیع، گالی گلوچ اور فحش کلامی جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے وصال (مسلسل افطار کے بغیر کئی دن کے روزے رکھنے) سے منع فرمایا تو بعض صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ خود تو وصال کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون مجھ جیسا ہے؟ میرا تو حال یہ ہے کہ مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے لیکن وصال کرنے سے صحابہ نہیں رکے تو آنحضرت ﷺ نے ان کے ساتھ ایک دن کے بعد دوسرے دن کا وصال کیا پھر اس کے بعد لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر (عید کا) چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور وصال کرتا۔ یہ آپ نے تنبیہاً فرمایا تھا کیوں کہ وہ وصال کرنے پر مصر تھے۔ اس روایت کی متابعت شعیب، یحییٰ بن سعید اور یونس نے زہری سے کی ہے اور عبدالرحمن بن خالد فہمی نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کہ آپ نے ان کو سزا دینے کے طور پر ایک دن بھوکا رکھا پھر دوسرے دن بھوکا رکھا۔ اتفاق سے چاند ہو گیا ورنہ آپ اور روزے رکھے جاتے کہ دیکھیں کہاں تک یہ لوگ صبر کرتے ہیں۔ اس سے صحابہ پر حکم عدولی کا الزام ثابت ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا حکم فرمانا بطور حکم کے نہ تھا ورنہ صحابہ اس کے خلاف ہرگز نہ کرتے بلکہ ان پر شفقت اور مہربانی کے طور پر تھا۔ جب انہوں نے یہ آسانی پسند نہ کی تو آپ نے فرمایا اچھا یوں ہی سہی اب دیکھیں کتنے دن تک تم وصال کر سکتے ہو۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ امام یا حاکم قول یا فعل سے یا جس طرح چاہے مجرم کو تعزیر دے سکتا ہے۔ اس طرح مالی نقصان دے کر یعنی جرمانہ وغیرہ کر کے۔ ہمارے امام ابن قیم نے اپنی کتاب القضا میں اس کی بہت سی دلیلیں بیان کی ہیں کہ تعزیر بالمال ہماری شریعت میں درست ہے مگر بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے جو ان کی غلطی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب قریشی مخزومی مدنی ہیں۔ خلافت فاروقی میں پیدا ہوئے، فقہ و حدیث کے امام زہر اور عبادت میں یکتائے روزگار ہیں۔ مکحول نے کہا کہ میں بہت سے شہروں میں گھوما مگر سعید سے بڑا عالم میں نے نہیں پایا عمر بھر میں چالیس بار حج کیا۔ سنہ 93ھ میں فوت ہوئے۔ رحمة اللہ علیه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) forbade Al-Wisal (fasting continuously for more than one day without taking any meals). A man from the Muslims said, "But you do Al-Wisal, O Allah's Apostle! (ﷺ) " Allah's Apostle (ﷺ) I said, "Who among you is similar to me? I sleep and my Lord makes me eat and drink." When the people refused to give up Al-Wisal, the Prophet (ﷺ) fasted along with them for one day, and did not break his fast but continued his fast for another day, and when they saw the crescent, the Prophet (ﷺ) said, "If the crescent had not appeared, I would have made you continue your fast (for a third day)," as if he wanted to punish them for they had refused to give up Al-Wisal.