باب : جب کوئی ہجوم میں مرجائے یا مارا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: If someone dies or is killed in a big crowd)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6890.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب احد کے دن مشرکین شکست کھا گئے تو ابلیس بلند آواز سے چلایا: اللہ کے بندو! پچھلے لوگوں کی طرف سے اپنا بچاؤ کرو، چنانچہ آگے والے، پیچھے والوں کی طرف پلٹے پھر آگے والے، پیچھے لوگوں کی طرف سے اپنا بچاؤ کرو، چنانچہ آگے والے پیچھے والوں کی طرف پلٹے پھر آگے والے پیچھے والوں سے بھڑ گئے، اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے اچانک اپنے والد کو دیکھا تو انہوں نے کہا: اللہ کے بندو! یہ تو میرے والد ہیں۔ یہ تو میرے باپ ہیں۔ (سیدہ عائشہ ؓ نے) فرمایا: اللہ کی قسم! مسلمانوں نے انہیں قتل کر کے ہی دم لیا۔ اس پر حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے۔ حضرت عروہ نے کہا: آخر وقت تک حضرت حذیفہ ؓ کے یہی جذبات رہے، یعنی مسلمانوں سے محبت میں کمی نہ آئی۔
تشریح:
(1) اگر کوئی مسلمان کسی رش یا حادثے میں مارا جائے تو اس کی دیت کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں: ٭ایسے قتل کی دیت بیت المال سے دی جائے۔ ٭قتل کی دیت ان لوگوں پر ہے جو اس وقت موجود تھے۔ ٭مقتول کے وارث سے کہا جائے کہ تم کسی ایک کو نامزد کرو، پھر وہ اگر قسم اٹھائے تو دیت کا حقدار ہوگا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو مدعی علیہ کی قسم سے دعویٰ ختم ہو جائے گا۔ ٭ایسا خون رائیگاں اور ضائع ہے کسی سے دیت کا مطالبہ نہیں ہوگا۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق اس کے متعلق یہ موقف قرین قیاس ہے کہ بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی جائے تاکہ ایک مسلمان کا خون رائیگاں اور ضائع نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کی دیت از خود بیت المال سے ادا کی تھی۔ اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک عمل سے بھی ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن ایک آدمی رش میں مارا گیا تو انھوں نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کی۔ دور حاضر میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قومی خزانےسےحادثات میں مرنےوالوں کی دیت ادا کرے۔ (فتح الباري:271/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6643
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6890
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6890
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6890
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اگر کوئی ہجوم یا حادثے میں قتل یا فوت ہوجائے تو اس کی دیت کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔اسی اختلاف کے پیش نظر امام بخاری رحمہ اللہ نے جزم اور پختگی کے ساتھ کوئی حکم بیان نہیں کیا،تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ ہجوم والوں پر کوئی گناہ نہیں،البتہ اس کی دیت ہے یا نہیں،اگر ہے تو کون ادا کرے گا،اس کے متعلق ہم آئندہ بیان کریں گے۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب احد کے دن مشرکین شکست کھا گئے تو ابلیس بلند آواز سے چلایا: اللہ کے بندو! پچھلے لوگوں کی طرف سے اپنا بچاؤ کرو، چنانچہ آگے والے، پیچھے والوں کی طرف پلٹے پھر آگے والے، پیچھے لوگوں کی طرف سے اپنا بچاؤ کرو، چنانچہ آگے والے پیچھے والوں کی طرف پلٹے پھر آگے والے پیچھے والوں سے بھڑ گئے، اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے اچانک اپنے والد کو دیکھا تو انہوں نے کہا: اللہ کے بندو! یہ تو میرے والد ہیں۔ یہ تو میرے باپ ہیں۔ (سیدہ عائشہ ؓ نے) فرمایا: اللہ کی قسم! مسلمانوں نے انہیں قتل کر کے ہی دم لیا۔ اس پر حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے۔ حضرت عروہ نے کہا: آخر وقت تک حضرت حذیفہ ؓ کے یہی جذبات رہے، یعنی مسلمانوں سے محبت میں کمی نہ آئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کوئی مسلمان کسی رش یا حادثے میں مارا جائے تو اس کی دیت کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں: ٭ایسے قتل کی دیت بیت المال سے دی جائے۔ ٭قتل کی دیت ان لوگوں پر ہے جو اس وقت موجود تھے۔ ٭مقتول کے وارث سے کہا جائے کہ تم کسی ایک کو نامزد کرو، پھر وہ اگر قسم اٹھائے تو دیت کا حقدار ہوگا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو مدعی علیہ کی قسم سے دعویٰ ختم ہو جائے گا۔ ٭ایسا خون رائیگاں اور ضائع ہے کسی سے دیت کا مطالبہ نہیں ہوگا۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق اس کے متعلق یہ موقف قرین قیاس ہے کہ بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی جائے تاکہ ایک مسلمان کا خون رائیگاں اور ضائع نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کی دیت از خود بیت المال سے ادا کی تھی۔ اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک عمل سے بھی ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن ایک آدمی رش میں مارا گیا تو انھوں نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کی۔ دور حاضر میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قومی خزانےسےحادثات میں مرنےوالوں کی دیت ادا کرے۔ (فتح الباري:271/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو ابواسامہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے خبر دی، کہا ہم کو ہمارے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں مشرکین کو پہلے شکست ہو گئی تھی لیکن ابلیس نے چلا کر کہا اے اللہ کے بندو! پیچھے کی طرف والوں سے بچو! چنانچہ آگے کے لوگ پلٹ پڑے اور آگے والے پیچھے والوں سے (جو مسلمان ہی تھے) بھڑ گئے۔ اچانک حذیفہ ؓ نے دیکھا تو ان کے والد یمان ؓ تھے۔ حذیفہ ؓ نے کہا اللہ کے بندو! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم مسلمان انہیں قتل کر کے ہی ہٹے۔ اس پر حذیفہ ؓ نے کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ اس واقعہ کا صدمہ حضرت حذیفہ ؓ کو آخر وقت تک رہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : "When it was the day of (the battle of) Uhud, the pagans were defeated. Then Satan shouted, "O Allah's worshipers! Beware of what is behind you!" So the front files attacked the back files of the army. Hudhaifa looked, and behold, there was his father, Al-Yaman (being attacked) ! He shouted (to his companions), "O Allah's worshipers, my father, my father!" But by Allah, they did not stop till they killed him (i.e., Hudhaifa's father). Hudhaifa said, "May Allah forgive you." ('Urwa said, Hudhaifa continued asking Allah's Forgiveness for the killer of his father till he died.