باب : اگر کئی آدمی ایک شخص کو قتل کردیں تو کیا قصاص میں سب کو قتل کیا جائے گا یا قصاص لیا جائے گا؟
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: If a group killed or injured one man, will all have to give Diya or be punished with Al-Qisas?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مطرف نے شعبی سے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے ایک شخص کے متعلق گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے تو علی ؓنے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہی دونوں ایک دوسرے شخص کو لائے اور کہا کہ ہم سے غلطی ہوگئی تھی( اصل میں چور یہ تھا) تو علیؓ نے ان کی شہادت کو باطل قرار دیا اور ان سے پہلے کا( جس کا ہاتھ کاٹ دیاگیا تھا) خون بہا لیا اور کہا کہ اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم لوگوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
6897.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے وقت آپ کے منہ میں دوائی ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ فرمایا: ”تم ایسا نہ کرو۔“ ہم نے سمجھا کا منع کرنا اس لیے ہے کہ بیمار کو دوا سے ناگواری ہوتی ہے، چنانچہ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں دوائی ڈالنے سے روکا تھا؟“ ہم نے کہا: ہم یہ سمجھے تھے کہ دوا کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ ایسا فرما رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کے منہ میں دوائی ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا، البتہ عباس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے۔“
تشریح:
اس حدیث سے اگرچہ صاف طور پر قصاص ثابت نہیں ہوتا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ایک کام میں جو حضرات شریک تھے ان سب سے قصاص لیا گیا یا انھیں سزا دی گئی۔ بہرحال جب معمولی اشیاء میں قصاص ہے تو بڑے بڑے کاموں میں اگر کئی لوگ شریک ہو جائیں تو ان سے بطریق اولی قصاص لیا جائے گا، جیسے: قتل اور چوری وغیرہ میں تمام شرکاء کو قصاص میں شامل کیا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6650
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6897
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6897
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6897
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
ابن سیرین کہتے ہیں کہ اگر آدمی کو دو آدمی قتل کریں تو ان میں سے ایک کو قتل کیا جائے گا اور دوسرے سے دیت لی جائے گی۔اگر دوسے زیادہ ہیں تو باقی تمام پر دیت کو تقسیم کردیا جائے گا،مثلاً:اگر ایک شخص کو دس آدمیوں نے قتل کیا ہے تو ایک سے قصاص لیا جائے اور باقی نو پر دیت کو برابر تقسیم کردیا جائے گا۔لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کی تائید کی ہے کہ انسانی جان کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ تمام قاتل برابر، برابر قتل میں شریک ہوں گے،مثلاً:اگر چند لوگوں نے پتھر مار کر کسی آدمی کو قتل کیا تو گویا ہر آدمی نے پتھر اٹھا کر اسے قتل کیا ہے، لہٰذا سب اس جرم میں برابر، برابر شریک ہوں گے۔(فتح الباری:12/283)
اور مطرف نے شعبی سے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے ایک شخص کے متعلق گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے تو علی ؓنے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہی دونوں ایک دوسرے شخص کو لائے اور کہا کہ ہم سے غلطی ہوگئی تھی( اصل میں چور یہ تھا) تو علیؓ نے ان کی شہادت کو باطل قرار دیا اور ان سے پہلے کا( جس کا ہاتھ کاٹ دیاگیا تھا) خون بہا لیا اور کہا کہ اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم لوگوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے وقت آپ کے منہ میں دوائی ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ فرمایا: ”تم ایسا نہ کرو۔“ ہم نے سمجھا کا منع کرنا اس لیے ہے کہ بیمار کو دوا سے ناگواری ہوتی ہے، چنانچہ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں دوائی ڈالنے سے روکا تھا؟“ ہم نے کہا: ہم یہ سمجھے تھے کہ دوا کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ ایسا فرما رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کے منہ میں دوائی ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا، البتہ عباس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے اگرچہ صاف طور پر قصاص ثابت نہیں ہوتا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ایک کام میں جو حضرات شریک تھے ان سب سے قصاص لیا گیا یا انھیں سزا دی گئی۔ بہرحال جب معمولی اشیاء میں قصاص ہے تو بڑے بڑے کاموں میں اگر کئی لوگ شریک ہو جائیں تو ان سے بطریق اولی قصاص لیا جائے گا، جیسے: قتل اور چوری وغیرہ میں تمام شرکاء کو قصاص میں شامل کیا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
مطرف نے امام شعبی سے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے ایک آدمی کے متعلق گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے تو حضرت علی ؓ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے شخص کو لائے اور کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی (اصل میں چور یہ تھا) تو آپ نے ان کی گواہی کو باطل قرار دیا اور ان سے پہلے کا خون بہا لیا اور فرمایا: اگر مجھے یقین ہوتا تم لوگوں نے دانستہ ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ہم سے یحییٰ نے، ان سے سفیان نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے کہ عائشہ ؓ نے کہا، ہم نے نبی کریم ﷺ کے مرض میں آپ کے منہ میں زبردستی دوا ڈالی۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ اشارہ کرتے رہے کہ دوا نہ ڈالی جائے لیکن ہم نے سمجھا کہ مریض کو دوا سے جو نفرت ہوتی ہے (اس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ فرما رہے ہیں) پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو فرمایا۔ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ دوا نہ ڈالو۔ بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے دوا سے ناگواری کی وجہ سے ایسا کیا ہوگا؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کے منھ میں دوا ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا سوائے عباس کے کیوں کہ وہ اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : We poured medicine into the mouth of Allah's Apostle (ﷺ) during his illness, and he pointed out to us intending to say, "Don't pour medicine into my mouth." We thought that his refusal was out of the aversion a patient usually has for medicine. When he improved and felt a bit better he said (to us.) "Didn't I forbid you to pour medicine into my mouth?" We said, "We thought (you did so) because of the aversion, one usually have for medicine." Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is none of you but will be forced to drink medicine, and I will watch you, except Al-'Abbas, for he did not witness this act of yours."