مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6938.
حضرت عتبان بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس صبح صبح تشریف لائے تو ایک آدمی نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ہم میں سے ایک آدمی نے کہا: وہ منافق ہے۔ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت نہیں کرتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے تم یوں کیوں نہیں کہتے کہ وہ لا إله إلا اللہ پڑھتا ہے اور اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا جوئی ہے؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک جو بندہ بھی قیامت کے دن اس کلمے کو لے کر آئے گا اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔“
تشریح:
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آنے والے مہمانوں نے حضرت مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کو منافق کہا اور اس کے متعلق تبصرہ کیا کہ اسے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی بات تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ انھیں معذور خیال فرمایا کیونکہ ان کے پاس معقول وجہ تھی کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا منافقین کے ساتھ تھا، نیز وہ اس مبارک مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی کہ اسلام کے احکام تو ظاہری حالات پر لاگو ہوتے ہیں، باطن کا حال اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے باطن کی بھی خبر دی کہ وہ کلمہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہے۔ (فتح الباري: 381/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6689
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6938
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6938
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6938
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خوارج نے حاکم وقت سے بغاوت کرنے اور انھیں کافر قرار دینے میں ایک آیت کریمہ کا سہارا لیا تھا جسے انھوں نے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا۔دوسرے الفاظ میں انھوں نے اس کی تاویل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں پر چسپاں کیا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی تاویل ہے جس سے تاویل کرنے والے کو تحفظ ملتا ہے اور ایسی تاویل کے اصول وضوابط کیا ہیں؟امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اسی مقصد کے لیے قائم کیا ہے۔ پیش کردہ احادیث سے وہ اصول وضوابط معلوم کیے جاسکتے ہیں جو تاویل کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔بہرحال اگر کوئی کفریہ کام یا کفریہ بات کا مرتکب ہو اور اپنے پاس اس کے لیے کوئی معقول تاویل رکھتا ہوتو اسے معذور تصور کیا جائے گا۔ معقول تاویل کے لیے تین شرطوں کا ہونا ضروری ہے:٭عربی قاعدے کے مطابق الفاظ میں اس کی تاویل کی گنجائش موجود ہو۔٭علمی طور پر اس عمل یا بات کی توجیہ ممکن ہو۔٭تاویل کرنے والے کی نیت صحیح ہو،اس میں کوئی فتور نہ ہو۔اگر کسی کو تاویل سے اتفاق نہ ہویا معقول وجہ کو ماننے کے لیے آمادہ نہ ہو تو اسے غلط ٹھہرانے کے بجائے اس کی تاویل یا معقول وجہ کا بودا پن واضح کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ ہر قسم کی تاویل سے متأول(تاویل کرنے والے) کو معذور تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ تاویل کار گر ہوگی جس کی بنیاد کسی شرعی دلیل میں غور وفکر پر ہو لیکن اس شرعی دلیل کو سمجھنے میں اسے غلطی لگ جائے، مثلاً: حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی کی۔ جب انھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں پیش کیا گیا تو انھوں نے درج ذیل آیت بطور دلیل پیش کردی:" جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے انھیں اس بات پر کچھ گناہ نہیں ہوگا جو پہلے شراب پی چکے ہیں،جبکہ آئندہ اس سے پرہیز کریں،ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔"(المائدہ5: 93) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تونے تاویل میں غلطی کا ارتکاب کیا ہے اگر تو اللہ سے ڈرتا تو ضرور شراب نوشی سے پرہیز کرتا۔(الاصابۃ"3/229)اگر تاویل کی بنیاد کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ عقل وقیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین سے سوال کیا کہ تونے آدم کو سجدہ کیاں نہیں کیا؟تو اس نے جواب دیا: میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔ابلیس نے اپنی ہٹ دھرمی کو جواز مہیا کرنے کے لیے غلط تاویل کا سہارا لیا،اس لیے راندۂ درگاہ ہوا۔اسی طرح باطنی حضرات نے شرعی واجبات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے غلط تاویلات کا سہارا لیا۔ہم اس سلسلے میں دور حاضر کے روشن خیال لوگوں کی دوتاویلیں بطور مثال پیش کرتے ہیں:٭معجزات کے منکرین نے حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آیات کا یوں ترجمہ کیا ہے: " اگر وہ بہترین تیراک(تیرنے والے) نہ ہوتے تو وہ سمندر کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔"حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے: "اگر وہ ہماری تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔"(الصٰفٰت37: 143، 144)عربی قواعد کے اعتبار سے اگرچہ الفاظ میں اس کی گنجائش ہے لیکن ان حضرات کی نیت میں فتور ہے کیونکہ وہ اس آڑ میں معجزات کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔٭قادیانی حضرات کو بھی کسی شرعی دلیل کو سمجھنے میں غلطی نہیں لگی بلکہ انھوں نے اپنی غلط تاویلات کے سہارے قصر نبوت میں نقب زنی کی ہے۔انھوں نے قرآنی الفاظ(خاتم النبین) کے یہ معنی کہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ انبیاء کے لیے مہر کاکام دیتے ہیں،یعنی اپنی مہرلگاکر انھیں پروانۂ نبوت عطا کرتے ہیں۔اس قسم کی تاویلات خواہشات نفس کا پلندہ ہیں، تاہم علمائے امت نے تأویلات کا بودا پن ان پر ظاہر کردیا۔اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ پیش کریں گے۔ انشاء اللہ۔
حضرت عتبان بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس صبح صبح تشریف لائے تو ایک آدمی نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ہم میں سے ایک آدمی نے کہا: وہ منافق ہے۔ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت نہیں کرتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے تم یوں کیوں نہیں کہتے کہ وہ لا إله إلا اللہ پڑھتا ہے اور اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا جوئی ہے؟“ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک جو بندہ بھی قیامت کے دن اس کلمے کو لے کر آئے گا اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔“
حدیث حاشیہ:
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آنے والے مہمانوں نے حضرت مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کو منافق کہا اور اس کے متعلق تبصرہ کیا کہ اسے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی بات تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ انھیں معذور خیال فرمایا کیونکہ ان کے پاس معقول وجہ تھی کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا منافقین کے ساتھ تھا، نیز وہ اس مبارک مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی کہ اسلام کے احکام تو ظاہری حالات پر لاگو ہوتے ہیں، باطن کا حال اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے باطن کی بھی خبر دی کہ وہ کلمہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہے۔ (فتح الباري: 381/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں محمود بن الربیع نے خبر دی، کہا کہ میں نے عتبان بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ صبح کے وقت نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے پھر ایک صاحب نے پوچھا کہ مالک بن الدخشن کہاں ہیں؟ ہمارے قبیلہ کے ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے اس پر فرمایا کیا تم ایسا نہیں سمجھتے کہ وہ کلمہ لا إله إلا اللہ کا اقرار کرتا ہے اور اسکا مقصد اس سے اللہ کی رضا ہے۔ اس صحابی نے کہا کہ ہاں یہ تو ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر جو بندہ بھی قیامت کے دن اس کلمہ کو لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔
حدیث حاشیہ:
باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر مواخذہ نہیں کیا جنہوں نے مالک کو منافق کہا تھا اس لیے کہ وہ تاویل کرنے والے تھے یعنی مالک کے حالات کو دیکھ کر اسے منافق سمجھتے تھے تو ان کا گمان غلط ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Itban bin Malik (RA) : Once Allah's Apostle (ﷺ) came to me in the morning, and a man among us said, "Where is Malik bin Ad-Dukhshun?" Another man from us replied, "He is a hypocrite who does not love Allah and His Apostle." The Prophet (ﷺ) said, "Don't you think that he says: None has the right to be worshipped but Allah, only for Allah's sake?" They replied, "Yes" The Prophet (ﷺ) said, "Nobody will meet Allah with that saying on the Day of Resurrection, but Allah will save him from the Fire."