Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: Avoiding the use of tricks)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ یہ حدیث ہے کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے قسم وغیرہ میں یہ حدیث عبادات اور معاملات سب کو شامل ہے۔
6953.
حضرت علقمہ بن وقاص سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں حضرت عمر ؓ کو دوران خطبہ میں کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے لوگو! اعمال کا دار مدار نیتوں پر ہے۔ ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا، لہذا جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے تو یقیناً اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے اور کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“
تشریح:
1۔ اگرحیلہ سازی کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کیا جائے یا اس کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا جائے تو ایسا کرنا حرام ہے،مثلاً: ایک آدمی کسی مطلقہ عورت سے نکاح کرتا ہے، اگراس کی نیت اس عورت کو آباد کرنا اور اسے سہارا مہیا کرنا ہے تو وہ نکاح جائز اور حلال ہے اور اس نکاح کو بطور حیلہ پہلے خاوند کے لیے حلال کرنا ہے تو اس قسم کا نکاح حرام اورناجائز ہے۔ نیت کا فساد، اس نکاح پر اثر انداز ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کی خاطرحلالہ کیا گیا ہے دونوں پر لعنت کی ہے۔ (سن أبي داود، النکاح، حدیث 2076) اگر نکاح کرتے وقت اس قسم کی نیت نہ تھی بلکہ محض اپنا گھر آباد کرنا مقصود تھا تو پھر ایسا نکاح بابرکت ہے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنے استعمال کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اور ایک دوسرا غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرتا ہے، ان دونوں کی صورت تو ایک ہے لیکن نیت الگ الگ ہے نیت کے اچھے ہونے کی بنا پر پہلی صورت جائز اور نیت کی خرابی دوسری صورت کے ناجائز ہونے کا باعث ہے۔ 2۔بہرحال نیت کی خرابی اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے کسی کام کے جائز یا ناجائز ہونے میں انسان کی نیت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نیت سے ترک حیل (حیلہ سازی نہ کرنے) پر استدلال کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6704
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6953
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6953
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6953
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "ترک" کو اپنے عنوان میں اس لیے شامل کیا ہےتاکہ اس کے بغیر عنوان سے حیلہ سازی کے جواز کا وہم نہ ہو،نیز نیت کا تعلق صرف عبادات سے نہیں بلکہ معاملات وغیرہ سے بھی ہے جیسا کہ انگور خریدنے سے اگر کسی کی نیت ان سے شراب کشید کرنا ہے اور فروخت کرنے والے کو پتا چل گیا کہ اس نےغلط مقاصد کے لیے انھیں استعمال کرنا ہے تو ایسے انسان کو انگور فروخت کرنا صحیح نہیں ہوگا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آئندہ جن حیلوں کو بیان کیاہے ان میں حقوق اللہ یا حقوق الناس کا ابطال مقصود ہے۔ان تمام میں چونکہ نیت فاسد ہے،اس لیے یہ حیلے فساد نیت کی بنا پر حرام اور ناجائز ہیں۔واللہ اعلم۔
کیوں کہ یہ حدیث ہے کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے قسم وغیرہ میں یہ حدیث عبادات اور معاملات سب کو شامل ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علقمہ بن وقاص سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں حضرت عمر ؓ کو دوران خطبہ میں کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے لوگو! اعمال کا دار مدار نیتوں پر ہے۔ ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا، لہذا جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے تو یقیناً اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے اور کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ اگرحیلہ سازی کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کیا جائے یا اس کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا جائے تو ایسا کرنا حرام ہے،مثلاً: ایک آدمی کسی مطلقہ عورت سے نکاح کرتا ہے، اگراس کی نیت اس عورت کو آباد کرنا اور اسے سہارا مہیا کرنا ہے تو وہ نکاح جائز اور حلال ہے اور اس نکاح کو بطور حیلہ پہلے خاوند کے لیے حلال کرنا ہے تو اس قسم کا نکاح حرام اورناجائز ہے۔ نیت کا فساد، اس نکاح پر اثر انداز ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کی خاطرحلالہ کیا گیا ہے دونوں پر لعنت کی ہے۔ (سن أبي داود، النکاح، حدیث 2076) اگر نکاح کرتے وقت اس قسم کی نیت نہ تھی بلکہ محض اپنا گھر آباد کرنا مقصود تھا تو پھر ایسا نکاح بابرکت ہے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنے استعمال کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اور ایک دوسرا غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرتا ہے، ان دونوں کی صورت تو ایک ہے لیکن نیت الگ الگ ہے نیت کے اچھے ہونے کی بنا پر پہلی صورت جائز اور نیت کی خرابی دوسری صورت کے ناجائز ہونے کا باعث ہے۔ 2۔بہرحال نیت کی خرابی اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے کسی کام کے جائز یا ناجائز ہونے میں انسان کی نیت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نیت سے ترک حیل (حیلہ سازی نہ کرنے) پر استدلال کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے خطبہ میں سنا انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا اے لوگو! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا پس جس کی ہجرت اور اس کے رسول کی طرف ہواسے ہجرت (کا ثواب ملے گا) اور جس کی ہجرت کا مقصد دنیا ہوگی کہ جسے وہ حاصل کر لے یا کوئی عورت ہوگی جس سے وہ شادی کر لے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری نے حیلوں کے عدم جواز پر دلیل لی ہے کیوں کہ حیلہ کرنے والوں کی نیت دوسری ہوتی ہے اس لیے حیلہ ان کے لیے کچھ مفید نہیں ہو سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): The Prophet (ﷺ) said, 'O people! The reward of deeds depends upon the intentions, and every person will get the reward according to what he has intended. So, whoever emigrated for Allah and His Apostle, then his emigration was for Allah and His Apostle, and whoever emigrated to take worldly benefit or for a woman to marry, then his emigration was for what he emigrated for."