باب : جب کسی شخص نے دوسرے کی لونڈی زبردستی چھین لی اب لونڈی کے مالک نے اس پر دعویٰ کیا تو چھیننے والے نے یہ کہا کہ وہ لونڈی مرگئی۔ حاکم نے اس سے قیمت دلادی اب اس کے بعد مالک کو وہ لونڈی زندہ مل گئی تو وہ اپنی لونڈی لے لے گا اور چھیننے والے نے جو قیمت دی تھی وہ اس کو واپس کردے گایہ نہ ہوگا کہ جو قیمت چھیننے والے نے دی وہ لونڈی کا مول ہوجائے، وہ لونڈی چھیننے والے کی ملک ہوجائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: If somebody kidnaps a slave-girl and claims she is dead but her master finds her (alive))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا کہ وہ لونڈی چھیننے والے کی ملک ہوجائے گی کیوں کہ مالک اس لونڈی کا مول اس سے لے چکا ہے۔ یہ فتویٰ دیا ہے گویا جس لونڈی کی آدمی کو خواہش ہو اس کے حاصل کرلینے کی ایک تدبیر ہے کہ وہ جس کی چاہے گا اس کی لونڈی جبراً چھین لے گا جب مالک دعویٰ کرے گا تو کہہ دے گا کہ وہ مرگئی اور قیمت مالک کے پلے میں ڈال دے گا۔ اس کے بعد بے فکری سے پرائی لونڈی سے مزے اڑاتا رہے گا کیو ںکہ اس کے خیال باطل میں وہ لونڈی اس کے لیے حلال ہوگئی حالانکہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں ایک دوسرے کے مالک تم پر حرام ہیں اور فرماتے ہیں قیامت کے دن ہر دغاباز کے لیے ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا( تاکہ سب کو اس کی دغابازی کا حال معلوم ہوجائے)
6966.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے سے وہ پہچانا جائے گا۔‘‘
تشریح:
1۔صورت مسئلہ اس طرح ہے کہ ایک شخص کے پاس خوبصورت لونڈی ہے جو کسی دوسرے شخص کو پسند آ گئی۔ وہ شخص مالک سے فروخت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن مالک اس پر آمادہ نہ ہوا تو دوسرے شخص نے زبردستی چھین کر عدالت میں ثابت کر دیا کہ وہ مر گئی ہے۔ عدالت نے اس کی قیمت کا فیصلہ کر دیا اور مالک نے وہ قیمت وصول کر لی۔ اب اس لونڈی کے متعلق دو مؤقف ہیں: جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ مذکورہ صورت غدر کی ایک قسم ہے کیونکہ غاصب کا یہ دعویٰ کہ وہ مر گئی، اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حق میں ایک طرح کی خیانت اور دغا بازی ہے، لہذا اگر وہ زندہ مل گئی تو اصل مالک وصول کی ہوئی قیمت واپس کر کے وہ لونڈی لینے کا مجاز ہوگا اور وصول کی ہوئی قیمت اس لونڈی کی ثمن اور عوض بیع نہیں بنے گی کیونکہ ان دونوں میں باقاعدہ عقد بیع جاری ہی نہیں ہوا بلکہ مالک نے لونڈی کی قیمت تو محض اس کی ہلاکت کے گمان پر لی تھی، جب یہ سبب زائل ہو گیا تو اصل کی طرف رجوع واجب ہو گیا کہ وہ لونڈی اصل مالک ہی کی ہے۔ دوسراموقف "بعض لوگوں" کا ہے کہ جب غاصب نے اس کی قیمت ادا کر دی اور مالک نے اسے وصول کر لیا تو وہ لونڈی غاصب کی ملکیت میں آجائے گی اور اس کے لیے اسے اپنے کام میں لانا جائز ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فعل جائز نہیں تاہم اگر کسی نے حماقت میں آکر کر لیا ہے تو اسے نافذ کر دیا جائے گا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے اور ان کی حیلہ سازی سے پردہ اٹھایا ہے، پھر ان کی تقسیم جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کے تار پود بکھیرے ہیں کہ یہ تقسیم باطل اور دھوکا دہی کی ایک قسم ہے، چنانچہ پیش کردہ حدیث ’’دوسروں کے مال تم پر حرام ہیں‘‘ جس طرح جواز حیلہ کی نفی کرتی ہے، نفاذحیلہ کی بھی نفی کرتی ہے۔ جب باطل طریقے سے کسی دوسرے کا مال کھانا حرام ہے تو اس کا نفاذ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اس میں باہمی رضا مندی کی شرط بھی مفقود ہے کیونکہ مالک نے مشروط طور پر لونڈی کی قیمت وصول کی ہے لیکن جب وہ مری نہیں تورضا مندی کی شرط ہونے سے رضا مندی بھی ختم ہو گئی۔ اس حیلے سے تو فساق وفجار کے لیے فسق وفجور میں مبتلا رہنے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ ایک مسلمان کی شان نہیں کہ وہ ایسے حرکات کرے جس سے عیاش لوگوں کو فائدہ ہوا اور انھیں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6716
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6966
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6966
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6966
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
بعض لوگوں نے کہا کہ وہ لونڈی چھیننے والے کی ملک ہوجائے گی کیوں کہ مالک اس لونڈی کا مول اس سے لے چکا ہے۔ یہ فتویٰ دیا ہے گویا جس لونڈی کی آدمی کو خواہش ہو اس کے حاصل کرلینے کی ایک تدبیر ہے کہ وہ جس کی چاہے گا اس کی لونڈی جبراً چھین لے گا جب مالک دعویٰ کرے گا تو کہہ دے گا کہ وہ مرگئی اور قیمت مالک کے پلے میں ڈال دے گا۔ اس کے بعد بے فکری سے پرائی لونڈی سے مزے اڑاتا رہے گا کیو ںکہ اس کے خیال باطل میں وہ لونڈی اس کے لیے حلال ہوگئی حالانکہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں ایک دوسرے کے مالک تم پر حرام ہیں اور فرماتے ہیں قیامت کے دن ہر دغاباز کے لیے ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا( تاکہ سب کو اس کی دغابازی کا حال معلوم ہوجائے)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر دھوکہ دینے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے سے وہ پہچانا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔صورت مسئلہ اس طرح ہے کہ ایک شخص کے پاس خوبصورت لونڈی ہے جو کسی دوسرے شخص کو پسند آ گئی۔ وہ شخص مالک سے فروخت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن مالک اس پر آمادہ نہ ہوا تو دوسرے شخص نے زبردستی چھین کر عدالت میں ثابت کر دیا کہ وہ مر گئی ہے۔ عدالت نے اس کی قیمت کا فیصلہ کر دیا اور مالک نے وہ قیمت وصول کر لی۔ اب اس لونڈی کے متعلق دو مؤقف ہیں: جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ مذکورہ صورت غدر کی ایک قسم ہے کیونکہ غاصب کا یہ دعویٰ کہ وہ مر گئی، اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حق میں ایک طرح کی خیانت اور دغا بازی ہے، لہذا اگر وہ زندہ مل گئی تو اصل مالک وصول کی ہوئی قیمت واپس کر کے وہ لونڈی لینے کا مجاز ہوگا اور وصول کی ہوئی قیمت اس لونڈی کی ثمن اور عوض بیع نہیں بنے گی کیونکہ ان دونوں میں باقاعدہ عقد بیع جاری ہی نہیں ہوا بلکہ مالک نے لونڈی کی قیمت تو محض اس کی ہلاکت کے گمان پر لی تھی، جب یہ سبب زائل ہو گیا تو اصل کی طرف رجوع واجب ہو گیا کہ وہ لونڈی اصل مالک ہی کی ہے۔ دوسراموقف "بعض لوگوں" کا ہے کہ جب غاصب نے اس کی قیمت ادا کر دی اور مالک نے اسے وصول کر لیا تو وہ لونڈی غاصب کی ملکیت میں آجائے گی اور اس کے لیے اسے اپنے کام میں لانا جائز ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فعل جائز نہیں تاہم اگر کسی نے حماقت میں آکر کر لیا ہے تو اسے نافذ کر دیا جائے گا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے اور ان کی حیلہ سازی سے پردہ اٹھایا ہے، پھر ان کی تقسیم جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کے تار پود بکھیرے ہیں کہ یہ تقسیم باطل اور دھوکا دہی کی ایک قسم ہے، چنانچہ پیش کردہ حدیث ’’دوسروں کے مال تم پر حرام ہیں‘‘ جس طرح جواز حیلہ کی نفی کرتی ہے، نفاذحیلہ کی بھی نفی کرتی ہے۔ جب باطل طریقے سے کسی دوسرے کا مال کھانا حرام ہے تو اس کا نفاذ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اس میں باہمی رضا مندی کی شرط بھی مفقود ہے کیونکہ مالک نے مشروط طور پر لونڈی کی قیمت وصول کی ہے لیکن جب وہ مری نہیں تورضا مندی کی شرط ہونے سے رضا مندی بھی ختم ہو گئی۔ اس حیلے سے تو فساق وفجار کے لیے فسق وفجور میں مبتلا رہنے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ ایک مسلمان کی شان نہیں کہ وہ ایسے حرکات کرے جس سے عیاش لوگوں کو فائدہ ہوا اور انھیں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا ہے: وہ لونڈی چھننے والے کی ہو جائے گی کیونکہ مالک اس کی قیمت وصول کرچکا ہے،گویا جس لونڈی کی کسی آدمی کو خواہش ہو اور مالک سے بیچنا نہ چاہتا ہوتو اس کو حاصل کرنے کے لیے یہ حیلہ سازی ہے کہ وہ اس لونڈی کو زبردستی چھین لے۔ جب مالک اس کے خلاف دعویٰ کرے تو وہ اس کے مرجانے کا بیان دے گا اور اس کی قیمت مالک کو ادا کردے گا اور اس کے بعد وہ پرائی لونڈی سے مزے اڑاتا رہے گا کیونکہ اس کے خیال کے مطابق لونڈی اس کے لیے حلال ہوگئی ہے۔ حالانکہ نبی ﷺکا ارشاد گرامی ہے: ”ایک دوسرے کے مال تم پر حرام ہیں۔ نیز قیامت کے دن پر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے، اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
جس سے لوگ پہچان لیں گے کہ یہ دنیا میں دغا بازی کیا کرتا تھا (خود آگے فرماتے ہیں کہ میں تم میں کا ایک بشر ہوں تم میں کوئی زبان دراز ہوتا ہے میں اگر اس کے بیان پر اس کے بھائی کا حق اس کو دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں۔ جب آپ کے فیصلے سے دوسرے کا مال حلال نہ ہو تو کسی قاضی کا فیصلہ موجب حلت کیوں کر ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "For every betrayer there will be a flag by which he will be recognized on the Day of Resurrection. "