Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: (Tricks) in marriage)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6968.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت نہ كيا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس امر نہ معلوم کر لیا جائے۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! کنواری لڑکی کی اجازت کیسے ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس کا نکاح ہی کیا گیا لیکن کسی شخص نے حیلہ سازی کر کے دو جھوٹے گواہ بنا لیے کہ اس نے لڑکی سے اس کی رضا مندی سے نکاح کر لیا ہے اور قاضی نے اس نکاح کے متعلق فیصلہ دے دیا،حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹ پر مبنی اور باطل ہے، اس کے باوجود اس لڑکی سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ نکاح صحیح ہے۔
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں حیلہ سازوں کی مکاری اورفریب کاری اور دھوکا دہی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک ایک معصوم کنواری لڑکی کے متعلق جھوٹے گواہ پیش کر دینے کے بعد اگر کسی نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا تو وہ کنواری لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس ’’حرام کاری‘‘ پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، حالانکہ حدیث کی رو سے نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت ضروری ہے اس کے علاوہ سرپرست کی رضا مندی اور اجازت کی حیثیت بھی تسلیم شدہ ہے۔لیکن حیلہ سازی کے ذریعے سے فریب کاری پر مبنی نکاح میں نہ سرپرست کی اجازت حاصل کی گئی اور نہ لڑکی ہی کی اجازت کو پیش نظر رکھا گیا، صرف دو جھوٹے گواہوں کی گواہی سے عدالت سے فیصلہ حاصل کر کے معصوم لڑکی کو بیوی بنا لیا گیا۔ شاید ان کے ہاں اس قسم کے ضمنی نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت اور لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔ انھوں نے شمس الائمہ سرخسی کی المبسوط کے حوالے سے ایک روایت کا بھی کھوج لگایا ہے جس کی تفصیل یہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی شخص نے دو جھوٹے گواہ پیش کر دیے کہ میرا فلاح عورت سے نکاح ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہوں کی گواہی سے اس کے نکاح کا فیصلہ دے دیا، عورت نے بغرض عفت عرض کی: امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرا قطعاً اس آدمی سے نکاح نہیں ہے بلکہ یہ گواہ بالکل جھوٹے ہیں، لیکن اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میں آپ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ اب آپ میرا عقد نکاح اس سے کر دیں تاکہ میں حقیقی طور پر اس کے لیے حلال ہو جاؤں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ان دونوں گواہوں کی بنا پر میں نے جو نکاح کا فیصلہ دیا ہے یہی نکاح کے قائم مقام ہے لہذا نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ثابت ہی نہیں۔ اگر ثابت بھی ہو تو موقوف ہے۔ (فتح الباري: 428/12) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مرفوع حدیث کے مقابلے میں اس موقوف اثر کی کیا حیثیت ہے۔ 2۔بہرحال حیلہ سازوں کے یہ تمام سہارے مکڑی کے جالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ واللہ المستعان۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6718
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6968
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6968
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6968
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت نہ كيا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس امر نہ معلوم کر لیا جائے۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! کنواری لڑکی کی اجازت کیسے ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس کا نکاح ہی کیا گیا لیکن کسی شخص نے حیلہ سازی کر کے دو جھوٹے گواہ بنا لیے کہ اس نے لڑکی سے اس کی رضا مندی سے نکاح کر لیا ہے اور قاضی نے اس نکاح کے متعلق فیصلہ دے دیا،حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹ پر مبنی اور باطل ہے، اس کے باوجود اس لڑکی سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ نکاح صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں حیلہ سازوں کی مکاری اورفریب کاری اور دھوکا دہی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک ایک معصوم کنواری لڑکی کے متعلق جھوٹے گواہ پیش کر دینے کے بعد اگر کسی نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا تو وہ کنواری لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس ’’حرام کاری‘‘ پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، حالانکہ حدیث کی رو سے نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت ضروری ہے اس کے علاوہ سرپرست کی رضا مندی اور اجازت کی حیثیت بھی تسلیم شدہ ہے۔لیکن حیلہ سازی کے ذریعے سے فریب کاری پر مبنی نکاح میں نہ سرپرست کی اجازت حاصل کی گئی اور نہ لڑکی ہی کی اجازت کو پیش نظر رکھا گیا، صرف دو جھوٹے گواہوں کی گواہی سے عدالت سے فیصلہ حاصل کر کے معصوم لڑکی کو بیوی بنا لیا گیا۔ شاید ان کے ہاں اس قسم کے ضمنی نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت اور لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔ انھوں نے شمس الائمہ سرخسی کی المبسوط کے حوالے سے ایک روایت کا بھی کھوج لگایا ہے جس کی تفصیل یہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی شخص نے دو جھوٹے گواہ پیش کر دیے کہ میرا فلاح عورت سے نکاح ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہوں کی گواہی سے اس کے نکاح کا فیصلہ دے دیا، عورت نے بغرض عفت عرض کی: امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرا قطعاً اس آدمی سے نکاح نہیں ہے بلکہ یہ گواہ بالکل جھوٹے ہیں، لیکن اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میں آپ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ اب آپ میرا عقد نکاح اس سے کر دیں تاکہ میں حقیقی طور پر اس کے لیے حلال ہو جاؤں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ان دونوں گواہوں کی بنا پر میں نے جو نکاح کا فیصلہ دیا ہے یہی نکاح کے قائم مقام ہے لہذا نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ثابت ہی نہیں۔ اگر ثابت بھی ہو تو موقوف ہے۔ (فتح الباري: 428/12) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مرفوع حدیث کے مقابلے میں اس موقوف اثر کی کیا حیثیت ہے۔ 2۔بہرحال حیلہ سازوں کے یہ تمام سہارے مکڑی کے جالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور کسی بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لیا جائے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ اس کی (کنواری کی) اجازت کی کیا صورت ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کی خاموشی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے نکاح کیا۔ لیکن کسی شخص نے حیلہ کر کے دو جھوٹے گواہ کھڑے کر دئیے کہ اس نے لڑکی سے نکاح کیا ہے اس کی مرضی سے اور قاضی نے بھی اس کے نکاح کا فیصلہ کر دیا۔ حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے کہ گواہی جھوٹی تھی اس کے باوجود اس لڑکی سے صحبت کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ نکاح صحیح ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "A virgin should not be married till she is asked for her consent; and the matron should not be married till she is asked whether she agrees to marry or not." It was asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! How will she(the virgin) express her consent?" He said, "By keeping silent." Some people said, "If a virgin is not asked for her consent and she is not married, and then a man, by playing a trick presents two false witnesses that he has married her with her consent and the judge confirms his marriage as a true one, and the husband knows that the witnesses were false ones, then there is no harm for him to consummate his marriage with her and the marriage is regarded as valid."