باب : کیا امام کے لیے جائز ہے کہ وہ مجرموں اور گنہگاروں کو اپنے ساتھ بات چیت کرنے اور ملاقات وغیرہ کرنے سے روک دے۔
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: To forbid the criminals and sinners to talk to or visit the ruler)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7225.
سیدنا عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے، جس وقت سیدنا کعب ؓ نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کے قائد تھے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا کعب ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے سے پیچھے رہ گئے۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا۔۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہمارے ساتھ گفتگو کرنے سے روک دیا تو ہم پچاس راتیں اسی حالت میں رہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔
تشریح:
1۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کئی جنگوں میں شریک رہے ہیں لیکن غزوہ تبوک میں محض سستی کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے اور یہ بہت بڑا قومی جرم تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باز پرس کی تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میرے پاس پیچھے رہنے کے متعلق کوئی معقول عذر نہیں ہے۔ ان کےساتھ دو صحابی اور بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں سے سوشل بائیکاٹ کیا اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ان کے ساتھ میل ملاپ اور بات چیت کرنے سے منع فرما دیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ 2۔اب بھی ایسے معاملات امامِ وقت کی صوابدید پر موقوف کیے جا سکتے ہیں۔ واللہ أعلم۔
سیدنا عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے، جس وقت سیدنا کعب ؓ نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں سے یہی ان کے قائد تھے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا کعب ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے سے پیچھے رہ گئے۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا۔۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہمارے ساتھ گفتگو کرنے سے روک دیا تو ہم پچاس راتیں اسی حالت میں رہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کئی جنگوں میں شریک رہے ہیں لیکن غزوہ تبوک میں محض سستی کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے اور یہ بہت بڑا قومی جرم تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باز پرس کی تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میرے پاس پیچھے رہنے کے متعلق کوئی معقول عذر نہیں ہے۔ ان کےساتھ دو صحابی اور بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں سے سوشل بائیکاٹ کیا اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ان کے ساتھ میل ملاپ اور بات چیت کرنے سے منع فرما دیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ 2۔اب بھی ایسے معاملات امامِ وقت کی صوابدید پر موقوف کیے جا سکتے ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبد الرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک نے کہ عبد اللہ بن کعب بن مالک‘ کعب بن مالک ؓ کے نا بینا ہو جانے کے زمانے میں ان کے سب لڑکوں میں یہی راستے میں ان کے ساتھ چلتے تھے‘ نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے‘ پھر انہوں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا اور آنحضرت ﷺ نے مسلمانو ں کو ہم سے گفتگو کرنے سے روک دیا تھا تو ہم پچاس دن اسی حالت میں رہے‘ پھر آنحضرت ﷺ نے اعلان کیا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت کعب بن مالک نے غزوہ تبوک سے بلا اجازت غیر حاضری کی تھی اور یہ بڑا بھاری جرم تھا جو ان سے صادر ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے پورا ترک مواملات فرمایا حتیٰ کہ ان کی توبہ اللہ نے قبول کی۔ اب ایسے معاملات خلیفہ اسلام کی صواب دید پر موقوف کئے جا سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Ka'b bin Malik (RA) : Who was Ka'b's guide from among his sons when Ka'b became blind: I heard Ka'b bin Malik saying, "When some people remained behind and did not join Allah's Apostle (ﷺ) in the battle of Tabuk.." and then he described the whole narration and said, "Allah's Apostle (ﷺ) forbade the Muslims to speak to us, and so we (I and my companions) stayed fifty nights in that state, and then Allah's Apostle (ﷺ) announced Allah's acceptance of our repentance."