کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی پیروی کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Following the Sunna of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ فرقان میں فرمانا کہ ” اے پروردگار! ہم کو پر ہیز گاروں کا پیشوا بنا دے ۔ “ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد لو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبد اللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں ‘ ایک تو علم حدیث ۔ مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید ‘ اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں ۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر وبھلائی کے ساتھ کیا کریں ‘ کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں ۔
7287.
سیدنا اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ جب سورج گرہن ہوا تو میں سید ہ عائشہ ؓ کے پاس آئی اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور سیدہ عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے (اب تک) نہیں دیکھا تھا مگر اس جگہ کھڑے ہوئے اسے دیکھا ہے یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ بھی دیکھی ہے۔ میری طرف وحی گئی کہ تمہارا قبروں میں امتحان ہوگا اور دجال کے فتنے کے قریب قریب ہوگا۔ بہرحال مومن۔۔۔۔۔یا مسلمان، میں نہیں جانتی اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا۔۔۔ (وہ قبر میں فرشتوں کے سوال پر) کہے گا: یہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے تھے۔ ہم نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور ایمان لائے۔ اسے کہا جائے گا: آرام سے سو جاؤ۔۔۔۔ ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو۔ پھر منافق ۔۔۔یا شک کرنے والا میں نہیں جانتی کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سا لفظ کہا۔۔۔۔۔تو وہ کہے گا: میں نہیں جانتا۔ میں نے جو کہتے ہوئے سنا وہی میں نے بک دیا تھا۔
تشریح:
1۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مومن انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے گا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کھلی اور واضح نشانیاں لے کر آئے ہم نے انھیں قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، لہذا مومن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، نیز اس حدیث سے زندگی گزارنے کے لیے ایک راستے اور منہج کی رہنمائی ہوتی ہے اور وہ ہے قرآن وحدیث کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، انھیں مان لینا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ یہ اہل ایمان کی علامت ہے اور اُخروی کامیابی کے لیے ایسا رویہ انتہائی ضروری ہے۔ 2۔اس کے برعکس قرآن وحدیث کے دلائل دیکھ کر لوگوں کی باتوں کو ترجیح دینا، اقوال رجال کو ماننا اور بزرگوں کی باتوں کو قابل عمل ٹھہرانا ایک مومن کا طریقہ کار نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا رویہ وہ اختیار کرتا ہے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہو یا کفر ونفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔ بہرحال ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ طریقے اور منہج کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور منافق یا شک میں مبتلا شخص کے طریق کار کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اسی میں ہماری نجات اور اُخروی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7014
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7287
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7287
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7287
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن آپ کے اقوال وافعال ہیں۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کی اقتدا کریں اور جو انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معتوب اور گمراہ ہے اور اس کے متعلق سخت وعید سنائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"جو لوگ اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائیں یا انھیں کوئی المناک عذاب آپہنچے۔"(النور 24/63) جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے گا وہی بعد میں آنے والے لوگوں کا امام ہوگا۔ابن عون رحمۃ اللہ علیہ نے جن تین خصلتوں کاذکرکیا ہے ان میں اعتصام بالکتاب والسنۃ ہی کی تلقین کی ہے کہ پہلے انھیں سمجھا جائے،پھر ان پر عمل کیاجائے۔واللہ اعلم۔
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ فرقان میں فرمانا کہ ” اے پروردگار! ہم کو پر ہیز گاروں کا پیشوا بنا دے ۔ “ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد لو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبد اللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں ‘ ایک تو علم حدیث ۔ مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید ‘ اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں ۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر وبھلائی کے ساتھ کیا کریں ‘ کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ جب سورج گرہن ہوا تو میں سید ہ عائشہ ؓ کے پاس آئی اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور سیدہ عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے (اب تک) نہیں دیکھا تھا مگر اس جگہ کھڑے ہوئے اسے دیکھا ہے یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ بھی دیکھی ہے۔ میری طرف وحی گئی کہ تمہارا قبروں میں امتحان ہوگا اور دجال کے فتنے کے قریب قریب ہوگا۔ بہرحال مومن۔۔۔۔۔یا مسلمان، میں نہیں جانتی اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا۔۔۔ (وہ قبر میں فرشتوں کے سوال پر) کہے گا: یہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے تھے۔ ہم نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور ایمان لائے۔ اسے کہا جائے گا: آرام سے سو جاؤ۔۔۔۔ ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو۔ پھر منافق ۔۔۔یا شک کرنے والا میں نہیں جانتی کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سا لفظ کہا۔۔۔۔۔تو وہ کہے گا: میں نہیں جانتا۔ میں نے جو کہتے ہوئے سنا وہی میں نے بک دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مومن انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے گا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کھلی اور واضح نشانیاں لے کر آئے ہم نے انھیں قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، لہذا مومن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، نیز اس حدیث سے زندگی گزارنے کے لیے ایک راستے اور منہج کی رہنمائی ہوتی ہے اور وہ ہے قرآن وحدیث کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، انھیں مان لینا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ یہ اہل ایمان کی علامت ہے اور اُخروی کامیابی کے لیے ایسا رویہ انتہائی ضروری ہے۔ 2۔اس کے برعکس قرآن وحدیث کے دلائل دیکھ کر لوگوں کی باتوں کو ترجیح دینا، اقوال رجال کو ماننا اور بزرگوں کی باتوں کو قابل عمل ٹھہرانا ایک مومن کا طریقہ کار نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا رویہ وہ اختیار کرتا ہے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہو یا کفر ونفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔ بہرحال ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ طریقے اور منہج کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور منافق یا شک میں مبتلا شخص کے طریق کار کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اسی میں ہماری نجات اور اُخروی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”(اے ہمارے رب!) اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔“ ا س کے معنی یہ ہیں کہ ہم پہلے لوگوں کی پیروی کریں اور بعد میں آنے والے ہماری پیروی کریں۔ ¤ابن عون نے کہا: تین باتیں اسی ہیں کو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں: ایک تو علم حدیث ہے، مسلمانوں کو اسے ضرور سیکھنا چاہیے اور اسکے متعلق دوسروں سے دریافت کرنا چاہیے۔دوسرا قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے اس کا مطالب ومعارف کی تحقیق کرتے رہیں ۔تیسرا یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ بھلائی کے ساتھ کریں کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا‘ ان سے مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے فاطمہ بنت منذر نے‘ ان سے اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ میں عائشہ ؓ کے یہاں گئی۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا سبحان اللہ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے ؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا‘ کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا‘ یہاں تک کہ جنت ودوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے‘ دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ (قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا) محمد ﷺ ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئیں اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے ۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو‘ ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء ؓ نے کہا تھا‘ تو وہ کہے گا (آنحضرت ﷺ کے متعلق سوال پر کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلا کہ ہم نے ان کا کہنا مان لیا‘ ان پر ایمان لائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma' bint Abu Bakr (RA) : I came to 'Aisha (RA) during the solar eclipse. The people were standing (offering prayer) and she too, was standing and offering prayer. I asked, "What is wrong with the people?" She pointed towards the sky with her hand and said, Subhan Allah!'' I asked her, "Is there a sign?" She nodded with her head meaning, yes. When Allah's Apostle (ﷺ) finished (the prayer), he glorified and praised Allah and said, "There is not anything that I have not seen before but I have seen now at this place of mine, even Paradise and Hell. It has been revealed to me that you people will be put to trial nearly like the trial of Ad-Dajjal, in your graves. As for the true believer or a Muslim (the sub-narrator is not sure as to which of the two (words Asma' had said) he will say, 'Muhammad came with clear signs from Allah, and we responded to him (accepted his teachings) and believed (what he said)' It will be said (to him) 'Sleep in peace; we have known that you were a true believer who believed with certainty.' As for a hypocrite or a doubtful person, (the sub-narrator is not sure as to which word Asma' said) he will say, 'I do not know, but I heard the people saying something and so I said the same.' "