موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي اجْتِهَادِ القُضَاةِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى)
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [المائدة: 45] «وَمَدَحَ النَّبِيُّﷺ صَاحِبَ الحِكْمَةِ حِينَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا» لاَ يَتَكَلَّفُ مِنْ قِبَلِهِ، وَمُشَاوَرَةِ الخُلَفَاءِ وَسُؤَالِهِمْ أَهْلَ العِلْمِ
7317 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ سَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ إِمْلَاصِ الْمَرْأَةِ هِيَ الَّتِي يُضْرَبُ بَطْنُهَا فَتُلْقِي جَنِينًا فَقَالَ أَيُّكُمْ سَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا فَقُلْتُ أَنَا فَقَالَ مَا هُوَ قُلْتُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ فَقَالَ لَا تَبْرَحْ حَتَّى تَجِيئَنِي بِالْمَخْرَجِ فِيمَا قُلْتَ.
صحیح بخاری:
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
باب : قاضیوں کو کوشش کر کے اللہ کی کتاب کے موافق حکم دینا چائےے کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تشریح : حافظ صاحب فرماتے ہیں : قال ابو علی الکرابیسی صاحب الشافعی فی کتاب آداب القضاءلہ اعلم بین العلماءممن سلف خلافا ان الناس ان یقضی بین المسلمین من بان فضلہ وصدقہ وعلمہ وورعہ قارئا لکتاب اللہ عالماً باکثر احکامہ عالما بسنن رسول اللہ حافظا لا کثر ھا وکذا اقول الصحابہ عالما بالوفاقوالخلاف واقوال فقھاءالتابعین یعرف الصحیح من السقیم یتبع فی التوازل الکتاب فان لم یجد فا لسنن فان لم یجد عمل بما اتفق علیہ الصحابۃفان اختلفو ا فی وجدہ الشبہ با لقرآن ثم بالسنۃ ثم بفتوی الصحابۃ عمل بہ ویکون کثیر المذاکرۃ مع اہل العلم والمشاورۃ لھم مع فضل وورع حافظا بہ ویکون کثیر المذاکرۃ معل اھل العلم والمشاورۃ لھم مع فضل وورع ویکون حافظا للسانہ وبطنہ وفرجہ فھما لکلام الخصوم الخ ‘ ( فتح الباری ) یعنی ابو علی کرابیسی نے کہا کتاب آداب القضاءمیں اور یہ حضرت امام شافعی کے شاگردوں میں سے ہے کہ میں علماءسلف میں اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں پاتا کہ جو شخص مسلمانوں میں عہدہ قضاپر فائز ہو اس کا علم وفضل وصدق اور تقویٰ ظاہر ہونا چاہئیے۔ وہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ‘ اس کا اکثر احکام کا جاننے والا ‘ رسول کریم ﷺ کی سنتوں کا عالم بلکہ اکثر سنن کا حافظ ہو نا چاہئیے۔ اسی طرح اقوال صحابہ کا بھی جاننے والا ہو ۔ نوازل میں کتاب اللہ کا اتباع کرنے والا ہو اگر کتاب اللہ میں نہ پا سکے تو پھر سنن نبوی میں پھر اقوال متفقہ صحابہ کرام میں ماہر ہو اور اہل علم واہل مشاورت کے ساتھ کثیر المذاکرہ ہو ‘ فضل وورع کو ہاتھ سے نہ دینے والا اور اپنی زبان کو کلام حرام سے ‘ پیٹ کو لقمہ حرام سے اور فرج کو حرام کاری سے پورے طور پر بچانے والااور خصم کے کلام کو سمجھنے والا ہو ۔
7317. سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا عمر ؓ نے عورت کے املاص کے متعلق پوچھا: ۔۔۔ اس سے مراد عہ عورت ہے جس کے پیٹ پر چوٹ لگا کر اس کا ناتمام بچہ ضائع کر دیا جائے۔۔۔۔ انہوں نے فرمایا: کیا آپ لوگوں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: بتاؤ تم نے کیا سنا ہے؟ میں نے کہا : ہاں۔ میں نے کہا میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”ایسی صورت ایک غلام یا لونڈی بطور تاوان دینی ہوگی۔“ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تمہاری خلاصی نہیں ہوگی جب تک اس حدیث پر کوئی گواہ پیش نہ کرو۔