کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : نبی کریم ﷺ کس چیز سے لوگوں کو منع کریں تو وہ حرام ہو گا مگر یہ کہ اس کی اباحت دلائل سے معلوم ہو جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Something forbidden by the Prophet (saws) is legally prohibited)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسی طرح آپ جس کا م کا حکم کریں ۔ مثلاً جب لوگ حج سے فارغ ہو گئے تو آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کہ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ ۔ جابر ؓ نے کہا کہ صحابہ پر آپ نے اس کا کرنا ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف اسے حلال کیا تھا ۔ ام عطیہؓ نے کا کہ ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ہے لیکن حرام نہیں ہوا ۔ تشریح : حضرت جابر ؓ کے اس اثر کو اسماعیلی نے وصل کا ۔ مطلب امام بخاری کا یہ ہے کہ اصل میں امر وجوب کے لیے اور نہی تحریم کے لیے موضوع ہے مگر جہاں قرائن یا دوسرے دلائل سے معلوم ہو جائے کہ وجوب یا تحریم مقصود نہیں ہے تو وہاں امر اباحت کے لیے اور نہی کراہت کے لیے ہو سکتی ہے ۔ حدیث ذیل سے باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ عورتوں سے صحبت کرنے کا جو حکم آپ نے دیا تھا وہ وجوب کے لیے نہ تھا ۔ قرآن میں ایسے بھی امر موجود ہیں جیسے فرمایا واذا حللتم فاصطادو ( المائدہ: 2 ) یعنی جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرو حالانکہ شکار کرنا کچھ اور واجب نہیں ہے ۔ اسی طرح فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشرو ا فی الاارض وابتغو من فضل اللہ ۔ ( الجمعہ : 10 )
7367.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام نے صرف حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ عمرے کی نیت نہ تھی۔ نبی ﷺ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ہمیں آپ نے حکم دیا کہ ہم حج کا احرام کھول دیں اور فرمایا: ”تم حج کا احرام کھول دو اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔“ سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر ؓ نے فرمایا: آپ نے بیویوں سے جماع کرنا ان پر واجب نہیں کیا تھا صرف عورتوں کو ان پر حلال کیا تھا، پھر آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ ہم لوگ کہتے ہیں: جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں تو آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس جائیں اس حالت میں جب ہم عرفہ جائیں گے تو ہماری شرم گاہوں سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ سیدنا جابر ؓ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت دیتے تھے۔ تب رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ سچا اور نیک ہوں۔ اگر میرے پاس قربانی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول دیتا جیسا کہ تم نے کھول دیے ہیں، لہذا تم مکمل طور پر حلال ہو جاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ پھر ہم احرام کھول کر (پوری طرح) حلال ہوگئے، ہم نے آپ کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔
تشریح:
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو بیویوں کے پاس جانے کا حکم دینا وجوب کے لیے نہ تھا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ہم پر واجب نہیں کیا تھا البتہ عورتوں کو ان کے شوہروں کے لیے حلال کیا تھا کہ وہ اگر اپنی بیویوں سے جماع کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں یہ ان پر حرام نہیں کیونکہ یہ پابندی صرف احرام کی وجہ سے تھی جب احرام کھول دیا گیا تو پابندی بھی ختم ہو گئی اور یہ حکم پہلی حالت پر آگیا یعنی جس طرح احرام سے پہلے بیویوں سے ہم بستری کرنا جائز تھا اسی طرح احرام کھول دینے کے بعد بھی حکم جواز کا ہی رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیویوں کے پاس جانے کا حکم دیا تھا اس سے صرف حلال ہونے میں مبالغہ مقصود تھا کیونکہ بیویوں سے جماع کرنا حج کو خراب کر دینا ہے جبکہ احرام کی دوسری پابندیاں حج کو خراب نہیں کرتیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پرزور انداز میں بیان فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7092
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7367
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7367
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7367
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
اسی طرح آپ جس کا م کا حکم کریں ۔ مثلاً جب لوگ حج سے فارغ ہو گئے تو آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کہ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ ۔ جابر ؓ نے کہا کہ صحابہ پر آپ نے اس کا کرنا ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف اسے حلال کیا تھا ۔ ام عطیہؓ نے کا کہ ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ہے لیکن حرام نہیں ہوا ۔ تشریح : حضرت جابر ؓ کے اس اثر کو اسماعیلی نے وصل کا ۔ مطلب امام بخاری کا یہ ہے کہ اصل میں امر وجوب کے لیے اور نہی تحریم کے لیے موضوع ہے مگر جہاں قرائن یا دوسرے دلائل سے معلوم ہو جائے کہ وجوب یا تحریم مقصود نہیں ہے تو وہاں امر اباحت کے لیے اور نہی کراہت کے لیے ہو سکتی ہے ۔ حدیث ذیل سے باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ عورتوں سے صحبت کرنے کا جو حکم آپ نے دیا تھا وہ وجوب کے لیے نہ تھا ۔ قرآن میں ایسے بھی امر موجود ہیں جیسے فرمایا واذا حللتم فاصطادو ( المائدہ: 2 ) یعنی جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرو حالانکہ شکار کرنا کچھ اور واجب نہیں ہے ۔ اسی طرح فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشرو ا فی الاارض وابتغو من فضل اللہ ۔ ( الجمعہ : 10 )
حدیث ترجمہ:
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام نے صرف حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ عمرے کی نیت نہ تھی۔ نبی ﷺ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ہمیں آپ نے حکم دیا کہ ہم حج کا احرام کھول دیں اور فرمایا: ”تم حج کا احرام کھول دو اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔“ سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر ؓ نے فرمایا: آپ نے بیویوں سے جماع کرنا ان پر واجب نہیں کیا تھا صرف عورتوں کو ان پر حلال کیا تھا، پھر آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ ہم لوگ کہتے ہیں: جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں تو آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس جائیں اس حالت میں جب ہم عرفہ جائیں گے تو ہماری شرم گاہوں سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ سیدنا جابر ؓ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت دیتے تھے۔ تب رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ سچا اور نیک ہوں۔ اگر میرے پاس قربانی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول دیتا جیسا کہ تم نے کھول دیے ہیں، لہذا تم مکمل طور پر حلال ہو جاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ پھر ہم احرام کھول کر (پوری طرح) حلال ہوگئے، ہم نے آپ کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو بیویوں کے پاس جانے کا حکم دینا وجوب کے لیے نہ تھا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ہم پر واجب نہیں کیا تھا البتہ عورتوں کو ان کے شوہروں کے لیے حلال کیا تھا کہ وہ اگر اپنی بیویوں سے جماع کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں یہ ان پر حرام نہیں کیونکہ یہ پابندی صرف احرام کی وجہ سے تھی جب احرام کھول دیا گیا تو پابندی بھی ختم ہو گئی اور یہ حکم پہلی حالت پر آگیا یعنی جس طرح احرام سے پہلے بیویوں سے ہم بستری کرنا جائز تھا اسی طرح احرام کھول دینے کے بعد بھی حکم جواز کا ہی رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیویوں کے پاس جانے کا حکم دیا تھا اس سے صرف حلال ہونے میں مبالغہ مقصود تھا کیونکہ بیویوں سے جماع کرنا حج کو خراب کر دینا ہے جبکہ احرام کی دوسری پابندیاں حج کو خراب نہیں کرتیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پرزور انداز میں بیان فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ ﷺ نے اپنے صحابہ پر اس کا کرنا ضروری قرار نہیں دیاتھا بلکہ اسے صرف حلال کیا تھا¤ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہمیں جنازے کے ساتھ سے منع کیا گیا تھا لیکن اس سلسلے میں ہم پر سختی نہیں کی گئی
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا‘ ان سے ابن جریج نے بیان کیا‘ ان سے عطاء نے بیان کیا‘ ان سے جابر ؓ نے (دوسری سند) حضرت امام ابو عبد اللہ بخاری نے کہا کہ محمد بن بکر برقی نے بیان کیا‘ ان سے ابن جریج نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی‘ انہوں نے جابر ؓ سے سنا‘ اس وقت اور لوگ بھی ان کے ساتھ تھے‘ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ خالص حج کا احرام باندھا اس کے ساتھ عمرہ کا نہیں باندھا۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر ؓ نے کہا کہ پھر آنحضرت ﷺ ۴ذی الحجہ کی صبح کو آئے اور جب ہم بھی حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور آپ نے فرمایا کہ حلا ل ہو جاؤ اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔ عطاء نے بیان کیا اور ان سے جابر ؓ نے کہ ان پر یہ ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف حلال کیا‘ پھر آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ ہم میں یہ بات ہورہی ہے کہ عرفہ پہنچنے میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اور پھر بھی آنحضرت ﷺ نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کا حکم دیا ہے‘ کیا ہم عرفات اس حالت میں جائیں کہ مذی یا منی ہمارے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ عطاء نے کہا کہ جابر ؓ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس طرح مذی ٹپک رہی ہو‘ اس کو ہلایا۔ پھر آنحضرت ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا‘ تمہیں معلوم ہے کہ میں تم میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں‘ تم میں سب سے زیادہ سچا ہوں اور سب سے زیادہ نیک ہوں اور اگر میرے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی حلال ہو جاتا‘ پس تم بھی حلال ہو جاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے سے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ چنانچہ ہم حلال ہو گئے اور ہم نے آنحضرت ﷺ کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ata: I heard Jabir bin 'Abdullah in a gathering saying, "We, the companions of Allah's Apostle (ﷺ) assumed the state of Ihram to perform only Hajj without 'Umra." Jabir added, "The Prophet (ﷺ) arrived (at Makkah) on the fourth of Dhul-Hijja. And when we arrived (in Makkah) the Prophet (ﷺ) ordered us to finish the state of Ihram, saying, "Finish your lhram and go to your wives (for sexual relation)." Jabir added, "The Prophet (ﷺ) did not oblige us (to go to our wives) but he only made that legal for us. Then he heard that we were saying, "When there remains only five days between us and the Day of Arafat he orders us to finish our Ihram by sleeping with our wives in which case we will proceed to 'Arafat with our male organs dribbling with semen?' (Jabir pointed out with his hand illustrating what he was saying). Allah's Apostle (ﷺ) stood up and said, 'You (People) know that I am the most Allah-fearing, the most truthful and the best doer of good deeds (pious) from among you. If I had not brought the Hadi with me, I would have finished my Ihram as you will do, so finish your Ihram. If I had formerly known what I came to know lately, I would not have brought the Hadi with me.' So we finished our Ihram and listened to the Prophet (ﷺ) and obeyed him." (See Hadith No. 713, Vol. 2)