Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The time for the Jumu'ah (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر اور علی اور نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث ؓ اجمعین سے اسی طرح مروی ہے۔
903.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنا کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ اندریں حالات ان سے کہا گیا کہ کاش تم نے غسل کر لیا ہوتا۔
تشریح:
(1) جمعہ کا وقت جمہور ائمہ کے نزدیک وقت ظہر ہی ہے، یعنی اسے بھی زوال آفتاب کے بعد پڑھنا چاہیے جبکہ امام احمد کا موقف ہے کہ جمعہ، عیدین کے وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں امام احمد ؒ کے موقف سے اختلاف کر کے جمہور کے موقف کو ثابت کیا ہے، چنانچہ اس حدیث میں لفظ "راحوا" استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعد از زوال جانا ہے جیسا کہ اکثر اہل لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔ پھر اس حدیث میں وضاحت ہے کہ اسی حالت میں لوگوں کو پسینہ آ جاتا جس سے بدبو پھیل جاتی۔ ایسا ہونا سخت گرمی میں ممکن ہے جبکہ وہ عوالی سے آتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ زوال یا اس کے قریب قریب مسجد میں آتے ہوں گے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے حدیث عائشہ ؓ کو ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:499/2) (2) بعض حنابلہ نے نماز جمعہ قبل از زوال، یعنی چاشت کے وقت پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کو مسلمانوں کی عید قرار دیا ہے، اس بنا پر عیدین کے وقت اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی عید قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عید کے تمام احکام اس پر چسپاں کر دیے جائیں۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے لیکن جمعہ کے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:498/2) اس کے علاوہ جمعہ میں خطبہ نماز سے پہلے ہے جبکہ عیدین میں نماز کے بعد ہے۔ عیدین میں نماز سے پہلے نوافل ادا کرنا منع ہے جبکہ جمعہ سے پہلے جائز ہے۔ عیدین کے لیے اذان و اقامت نہیں جبکہ جمعہ کے لیے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
890
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
903
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
903
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
903
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق سویہ بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ نماز جمعہ بعد از زوال آفتاب پڑھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ (2/217) میں یہ صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ اسی طرح حدیث سقیفہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب سورج ڈھل گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور منبر پر رونق افروز ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ بھی زوال آفتاب کے بعد جمعہ پڑھتے تھے، چنانچہ ابو رزین کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ پڑھتے، کبھی دیواروں کا سایہ مل جاتا اور کبھی اس سے محروم رہتے، نیز ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز جمعہ بعد از زوال آفتاب ادا کی تھی۔ ان آثار کو ابن ابی شیبہ نے (2/549-550 میں) صحیح سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ جو یزید بن معاویہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے ان کے متعلق سماک بن حرب بیان کرتے ہیں کہ ہمیں زوال آفتاب کے بعد جمعہ پڑھاتے تھے۔ عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کے متعلق ولید بن بزار بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی کو ان سے اچھی نماز جمعہ پڑھاتے نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ زوال آفتاب کے بعد نماز پڑھاتے تھے۔ ان آثار کو امام ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:2/550) حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے اس کے خلاف بھی مروی ہے کہ انہوں نے بوقت چاشت جمعہ پڑھا تھا لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں۔ (فتح الباری:2/498)
اور عمر اور علی اور نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث ؓ اجمعین سے اسی طرح مروی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنا کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ اندریں حالات ان سے کہا گیا کہ کاش تم نے غسل کر لیا ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جمعہ کا وقت جمہور ائمہ کے نزدیک وقت ظہر ہی ہے، یعنی اسے بھی زوال آفتاب کے بعد پڑھنا چاہیے جبکہ امام احمد کا موقف ہے کہ جمعہ، عیدین کے وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں امام احمد ؒ کے موقف سے اختلاف کر کے جمہور کے موقف کو ثابت کیا ہے، چنانچہ اس حدیث میں لفظ "راحوا" استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعد از زوال جانا ہے جیسا کہ اکثر اہل لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔ پھر اس حدیث میں وضاحت ہے کہ اسی حالت میں لوگوں کو پسینہ آ جاتا جس سے بدبو پھیل جاتی۔ ایسا ہونا سخت گرمی میں ممکن ہے جبکہ وہ عوالی سے آتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ زوال یا اس کے قریب قریب مسجد میں آتے ہوں گے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے حدیث عائشہ ؓ کو ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:499/2) (2) بعض حنابلہ نے نماز جمعہ قبل از زوال، یعنی چاشت کے وقت پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کو مسلمانوں کی عید قرار دیا ہے، اس بنا پر عیدین کے وقت اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی عید قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عید کے تمام احکام اس پر چسپاں کر دیے جائیں۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے لیکن جمعہ کے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:498/2) اس کے علاوہ جمعہ میں خطبہ نماز سے پہلے ہے جبکہ عیدین میں نماز کے بعد ہے۔ عیدین میں نماز سے پہلے نوافل ادا کرنا منع ہے جبکہ جمعہ سے پہلے جائز ہے۔ عیدین کے لیے اذان و اقامت نہیں جبکہ جمعہ کے لیے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث ؓ سے اسی طرح بیان کیا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یحی بن سعید نے خبر دی کہ انہوں نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور جمعہ کے لیے اسی حالت (میل کچیل) میں چلے آتے، اس لیے ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ (کبھی) غسل کر لیا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت لفظ حدیث کانو ''إذا راحوا إلی الجمعة'' سے ہے۔ علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں لأن الرواح لا یکون إلابعد الزوال امام بخاری نے اس سے ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام جمعہ کی نماز کے لیے زوال کے بعد آیا کرتے تھے معلوم ہوا کہ جمعہ کا وقت بعد زوال ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yahya bin Said (RA): I asked 'Amra about taking a bath on Fridays. She replied, “Aisha said, 'The people used to work (for their livelihood) and whenever they went for the Jumua prayer, they used to go to the mosque in the same shape as they had been in work. So they were asked to take a bath on Friday.' "