Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The facing of the Imam towards the people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر اور انس ؓ نے خطبہ میں امام کی طرف منہ کیا۔
921.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک دن منبر پر تشریف فر ہوئے تو ہم آپ کے اردگرد بیٹھ گئے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب الزکاة، کتاب الجهاد اور کتاب الرقاق میں بیان کیا ہے۔ یہاں الفاظ ہیں ’’تشریف فرما ہوئے‘‘ جبکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:2842) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے یہ مسئلہ بایں طور پر استنباط کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ ﷺ کے اردگرد ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھنا اور آپ کے وعظ کو سماعت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے۔ (تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ان کی طرف متوجہ تھے۔) امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے کچھ بھی ثابت نہیں۔ (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطبۂ جمعہ کے علاوہ کسی اور وعظ کا ذکر ہے کیونکہ خطبۂ جمعہ کے دوران میں آپ کا کھڑا ہونا ثابت ہے۔ جب خطبۂ جمعہ کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس قدر انہماک تھا تو خطبۂ جمعہ میں تو اس سے کہیں زیادہ ہو گا کیونکہ اس کے لیے خاموش ہونے اور اسے بغور سننے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:517/2) (3) ہماری مساجد میں تو صف بندی کے ساتھ ساتھ استقبال بھی ہو جاتا ہے، البتہ مسجد نبوی میں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں محراب اور منبر میں کچھ فاصلہ ہے، درمیان میں کچھ صفیں ہیں وہاں استقبال امام کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ امام ان کے پیچھے ہوتا ہے۔ اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں کو چاہیے کہ وہ امام کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھیں اگرچہ ایسی حالت میں قبلے کی طرف پیٹھ ہو جائے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
908
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
921
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
921
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
921
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جب امام حاضرین کی طرف منہ کرے گا تو قبلے کی طرف اس کی پشت ہو گی۔ ایک عظیم مقصد کے پیش نظر کعبے کی طرف پشت کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ خطبہ سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوں گے اور اس کے وعظ و نصحت کو توجہ اور غور سے سنیں گے بشرطیکہ امام بھی اپنے قلب اور قالب سے ان کی طرف متوجہ ہو۔ (فتح الباری:2/517) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ آپ امام کے تشریف لانے سے پہلے پہلے نوافل وغیرہ سے فارغ ہو جاتے اور جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اثر کو بھی امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:3/199)
اور عبداللہ بن عمر اور انس ؓ نے خطبہ میں امام کی طرف منہ کیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک دن منبر پر تشریف فر ہوئے تو ہم آپ کے اردگرد بیٹھ گئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب الزکاة، کتاب الجهاد اور کتاب الرقاق میں بیان کیا ہے۔ یہاں الفاظ ہیں ’’تشریف فرما ہوئے‘‘ جبکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:2842) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے یہ مسئلہ بایں طور پر استنباط کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ ﷺ کے اردگرد ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھنا اور آپ کے وعظ کو سماعت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے۔ (تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ان کی طرف متوجہ تھے۔) امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے کچھ بھی ثابت نہیں۔ (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطبۂ جمعہ کے علاوہ کسی اور وعظ کا ذکر ہے کیونکہ خطبۂ جمعہ کے دوران میں آپ کا کھڑا ہونا ثابت ہے۔ جب خطبۂ جمعہ کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس قدر انہماک تھا تو خطبۂ جمعہ میں تو اس سے کہیں زیادہ ہو گا کیونکہ اس کے لیے خاموش ہونے اور اسے بغور سننے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:517/2) (3) ہماری مساجد میں تو صف بندی کے ساتھ ساتھ استقبال بھی ہو جاتا ہے، البتہ مسجد نبوی میں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں محراب اور منبر میں کچھ فاصلہ ہے، درمیان میں کچھ صفیں ہیں وہاں استقبال امام کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ امام ان کے پیچھے ہوتا ہے۔ اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں کو چاہیے کہ وہ امام کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھیں اگرچہ ایسی حالت میں قبلے کی طرف پیٹھ ہو جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر اور حضرت انس ؓ امام کے ساتھ بیٹھ کر متوجہ ہوتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحی بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے، انہوں نے کہا ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ ایک دن منبر پر تشریف فر ہوئے اور ہم سب آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔
حدیث حاشیہ:
اور سب نے آپ کی طرف منہ کیا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ خطبہ کا اولین مقصد امام کے خطاب کو پوری توجہ سے سننا اور دل میں جگہ دینا اور اس پر عمل کرنے کا عزم کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امام کا خطاب اس طور پر ہو کہ سامعین اسے سمجھ لیں۔ اسی سے سامعین کی مادری زبان میں خطبہ ہونا ثابت ہوتا ہے، یعنی آیات واحادیث پڑھ پڑھ کر سامعین کی مادری زبان میں سمجھائی جائیں اور سامعین امام کی طرف منہ کر کے پوری توجہ سے سنیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): One day the Prophet (ﷺ) sat on the pulpit and we sat around him.