باب: جو دشمن کے پیچھے لگا ہو یا دشمن اس کے پیچھے لگا ہو وہ سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز پڑھ لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Fear Prayer
(Chapter: The chaser and the chased can offer Salat (prayer) while riding , and by signs)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور ولید بن مسلم نے کہا` میں نے امام اوزاعی سے شرحبیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کی نماز کا ذکر کیا کہ انہوں نے سواری پر ہی نماز پڑھ لی، تو انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی مذہب ہے جب نماز قضاء ہونے کا ڈر ہو۔ اور ولید نے نبی کریمﷺکے اس اشارے سے دلیل لی کہ کوئی تم میں سے عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر۔
946.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو ہمیں حکم فرمایا: ’’کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں اور نہ پڑھے۔‘‘ چنانچہ بعض لوگوں کو راستے میں عصر کا وقت آ گیا تو کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں گے اور کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں، لہٰذا ہم تو نماز پڑھیں گے۔ جب اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔
تشریح:
(1) ولید بن مسلم نے امام اوزاعی کے موقف کی تائید میں مذکورہ بالا واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو پہلے معلق ذکر کرنے کے بعد متصل سند سے بیان کیا ہے تاکہ صحت حدیث اور صحت استدلال کا علم ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے۔ حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے کیونکہ ہمارا بنو قریظہ سے نمٹنے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے منافقانہ طریقے سے دشمن کی مدد کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کا کام تمام کرنے کے لیے تیار ہو گئے، پھر آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرمایا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا وہ حملہ آور تھے اور آپ نے انہیں وہاں جلد پہنچنے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ روایت میں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے سواریوں سے اتر کر نماز پڑھی یا سوار رہتے ہوئے اسے ادا کیا، تاہم جلد پہنچنے کے تقاضے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سواریوں پر نماز پڑھی ہو گی۔ حضرت ولید بن مسلم نے سکوت سے استدلال کیا ہے کیونکہ حدیث میں سواریوں پر یا اتر کر نماز پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔ علامہ عینی نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ مطلوب آدمی نماز کو اشارے سے پڑھ سکتا ہے، حالانکہ اس پر رکوع اور سجود کا صحیح حالت میں ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بروقت نماز پڑھنا ضروری تھا لیکن انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے مؤخر کیا اور بنو قریظہ میں جا کر اسے ادا کیا۔ (عمدة القاري:147/5) (2) حملہ آور کی نماز کے متعلق ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓ کو خالد بن سفیان ہذلی کا کام تمام کرنے کے لیے روانہ کیا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو نماز عصر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ مجھے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوا تو میں نے چلتے چلتے اشارے سے نماز ادا کر لی کیونکہ اگر ٹھہر کر تسلی سے نماز پڑھتا تو دشمن کے نکل جانے کا اندیشہ تھا، چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا۔ (سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث:1249) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث پر ’’حملہ آور کی نماز‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:584/2) (3) بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا یہ مطلب لیا کہ راستے میں کسی جگہ پڑاؤ کیے بغیر ہم جلدی پہنچیں، انہوں نے نماز قصر نہ کی اور اسے سواری ہی پر ادا کر لیا جبکہ دوسرے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کے ارشاد گرامی کو ظاہر پر محمول کیا کہ اگر تعمیل حکم میں نماز دیر سے بھی ادا ہوئی تو ہم گناہ گار نہیں ہوں گے۔ چونکہ فریقین کی نیت درست تھی، اس لیے کوئی بھی قابل ملامت نہ ٹھہرا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
933
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
946
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
946
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
946
تمہید کتاب
پرامن حالات میں جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلاة الطمانينة کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں جب جنگی حالات ہوں اور چاروں طرف سے خطرات منڈلا رہے ہوں تو ایسے حالات میں صلاة الخوف ادا کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی انواع ہیں کیونکہ دشمن کبھی قبلہ کی سمت ہوتا ہے اور کبھی قبلے کی مخالف سمت میں۔ کوئی نماز چار رکعت، کوئی تین رکعت جبکہ نماز فجر دو رکعت پر مشتمل ہے۔ کبھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور کبھی مسلسل جنگ کی حالت میں باجماعت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ مجاہدین کبھی سوار ہوتے ہیں اور کبھی پیدل چلتے ہیں، بعض اوقات حالت نماز میں مسلسل چلنا پڑتا ہے، اس لیے احادیث میں نماز خوف کی متعدد صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری میں دو، سنن ابی داود میں چھ اور صحیح ابن حبان میں نو طریقے بیان ہوئے ہیں، کچھ دوسری کتب حدیث میں مروی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قرد، عسفان، نجد اور طائف وغیرہ میں نماز خوف ادا کی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز جمعہ کے بعد نماز خوف کو بیان فرمایا ہے جبکہ اس کے برعکس دیگر محدثین نماز جمعہ کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں۔ دیگر محدثین اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ جمعہ بھی عید ہے اور اس میں تجمل ہوتا ہے، لہذا اس مناسبت سے اس کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا کیونکہ نماز جمعہ فرض ہے، نماز خوف بھی فرض ہے، نماز جمعہ، ظہر کا بدل ہے اور نماز خوف بھی صلاة طمانينة کا بدل ہے، اسی منابست سے انہوں نے اسے نماز جمعہ کے بعد بیان فرمایا ہے۔بعض فقہاء نے غزوۂ خندق میں نمازوں کو مؤخر کر دینے کی وجہ سے نماز خوف کو منسوخ کہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اس کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نماز خوف سے متعلق آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے جو غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نزول کے بعد پہلی مرتبہ نماز خوف، غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر ادا کی۔ اس کے چار سال بعد مقام عسفان پر اسے ادا کیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چھ موصول احادیث بیان کی ہیں جن میں دو مکرر اور چار خالص ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین کے چھ آثار بھی بیان کیے ہیں جن میں امام مجاہد کا اثر موصول اور باقی آثار کو معلق طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار سے مختلف مسائل و احکام کا استنباط کیا ہے جس کے لیے چھ مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد حقائق و معارف، اسرار و رموز اور استنادی مباحث کو ذکر کیا ہے جو پڑھنے سے متعلق ہیں۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کی قوتِ استدلال، دقت فہم اور محدثانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ رحمة الله عليه رحمة واسعة
تمہید باب
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو شخص دشمن کی تلاش میں اس کے پیچھے دوڑ رہا ہو یا جس کی تلاش میں دشمن اس کے پیچھے دوڑ رہا ہو اگر اسے نماز کا وقت آ جائے تو وہ اشارے سے نماز پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ خطرے کی وجہ سے وہ رکوع اور سجود پر قادر نہ ہو۔ دشمن جس کے تعاقب میں ہے وہ بے چارہ خوف زدہ اور پریشان ہے، اس حالت میں اگر نماز کا وقت آ جائے تو وہ اپنی سواری پر اشارے سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اگر پیدل بھاگ رہا ہے تو بھی چلتے چلتے اشارے سے پڑھنے کی اجازت ہے، چنانچہ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مغلوب انسان اپنی سواری پر اشارے سے نماز پڑھے۔ اس کے برعکس اگر کوئی مجاہد دشمن کے تعاقب میں ہے، اسے بھی اپنی سواری پر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ اگر سواری سے اتر کر نماز پڑھی تو دشمن کے نکل جانے کا اندیشہ ہے یا پلٹ کر حملہ آور ہونے کا ایسے حالات میں اسے اپنی سواری پر اشارے سے نماز پڑھ لینی چاہیے، لیکن جب اس قسم کا اندیشہ یا خطرہ نہ ہو تو اپنی سواری سے اتر کر تسلی سے نماز پڑھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ وہ مجاہد جس کے پیچھے دشمن لگا ہوا ہے وہ تو بہر صورت اپنی سواری ہی پر نماز ادا کرے گا، البتہ جو مجاہد دشمن کے تعاقب میں ہے اسے دیکھا جائے گا کہ وہ کس قسم کی صورت حال سے دوچار ہے۔ لیکن امام اوزاعی کا موقف یہ ہے کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو غالب اور مغلوب دونوں کو سواری پر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ ابو اسحاق فزاری نے اپنی کتاب "السیر" میں امام اوزاعی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حملہ آور مجاہد کو یہ خطرہ ہو کہ اگر سواری سے اتر کر زمین پر نماز پڑھی تو دشمن بھاگنے میں کامیاب ہو جائے گا تو ایسی صورت میں اسے اپنی سواری پر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور استقبال قبلہ کی شرط بھی نہیں ہے۔ (فتح الباری:2/582) (2) شرجیل بن سمط اور اس کا بھائی ثابت بن سمط اپنے ساتھیوں سمیت کسی مہم کے لیے جا رہے تھے، راستے میں کسی مقام پر دشمن کا خطرہ محسوس ہوا تو شرجیل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تمہیں نماز فجر اپنی سواریوں ہی پر ادا کرنی ہے۔ ان میں اشتر نخعی بھی تھا وہ نیچے اترا اور زمین پر نماز پڑھنا شروع کر دی تو امیر لشکر نے فرمایا کہ اس نے ہماری مخالفت کی ہے، اللہ اسے خلاف ورزی کی سزا دے گا، چنانچہ وہ اس فتنے میں زخمی ہو گیا۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ وہ اپنی سواریوں پر تھے اور راستے میں انہیں کسی دشمن پر حملہ آور ہونے کا خطرہ تھا، اس لیے انہوں نے نماز فجر اپنی سواریوں پر ادا کی۔ معلوم ہوا کہ مغلوب آدمی سواری پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اس پر اجماع ہے، البتہ حملہ آور مجاہد کے متعلق تفصیل ہے کہ اگر اسے نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو یا دشمن کے بھاگ جانے کا یا پلٹ کر حملہ کر دینے کا ڈر ہو تو اسے بھی اپنی سواری پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے، بصورت دیگر نہیں۔ (عمدۃ القاری:5/146)
´اور ولید بن مسلم نے کہا` میں نے امام اوزاعی سے شرحبیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کی نماز کا ذکر کیا کہ انہوں نے سواری پر ہی نماز پڑھ لی، تو انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی مذہب ہے جب نماز قضاء ہونے کا ڈر ہو۔ اور ولید نے نبی کریم ﷺ کے اس اشارے سے دلیل لی کہ کوئی تم میں سے عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب غزوہ خندق سے واپس ہوئے تو ہمیں حکم فرمایا: ’’کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں اور نہ پڑھے۔‘‘ چنانچہ بعض لوگوں کو راستے میں عصر کا وقت آ گیا تو کچھ نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھیں گے اور کچھ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں، لہٰذا ہم تو نماز پڑھیں گے۔ جب اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ولید بن مسلم نے امام اوزاعی کے موقف کی تائید میں مذکورہ بالا واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو پہلے معلق ذکر کرنے کے بعد متصل سند سے بیان کیا ہے تاکہ صحت حدیث اور صحت استدلال کا علم ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ خندق سے واپس آئے تو آپ نے ہتھیار اتار دیے۔ حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم نے ابھی اپنے ہتھیار نہیں اتارے کیونکہ ہمارا بنو قریظہ سے نمٹنے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے منافقانہ طریقے سے دشمن کی مدد کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کا کام تمام کرنے کے لیے تیار ہو گئے، پھر آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرمایا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا وہ حملہ آور تھے اور آپ نے انہیں وہاں جلد پہنچنے کا حکم دیا تھا۔ اگرچہ روایت میں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے سواریوں سے اتر کر نماز پڑھی یا سوار رہتے ہوئے اسے ادا کیا، تاہم جلد پہنچنے کے تقاضے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سواریوں پر نماز پڑھی ہو گی۔ حضرت ولید بن مسلم نے سکوت سے استدلال کیا ہے کیونکہ حدیث میں سواریوں پر یا اتر کر نماز پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔ علامہ عینی نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ مطلوب آدمی نماز کو اشارے سے پڑھ سکتا ہے، حالانکہ اس پر رکوع اور سجود کا صحیح حالت میں ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بروقت نماز پڑھنا ضروری تھا لیکن انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے مؤخر کیا اور بنو قریظہ میں جا کر اسے ادا کیا۔ (عمدة القاري:147/5) (2) حملہ آور کی نماز کے متعلق ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓ کو خالد بن سفیان ہذلی کا کام تمام کرنے کے لیے روانہ کیا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو نماز عصر کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ مجھے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوا تو میں نے چلتے چلتے اشارے سے نماز ادا کر لی کیونکہ اگر ٹھہر کر تسلی سے نماز پڑھتا تو دشمن کے نکل جانے کا اندیشہ تھا، چنانچہ میں نے اسے قتل کر دیا۔ (سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث:1249) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث پر ’’حملہ آور کی نماز‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:584/2) (3) بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا یہ مطلب لیا کہ راستے میں کسی جگہ پڑاؤ کیے بغیر ہم جلدی پہنچیں، انہوں نے نماز قصر نہ کی اور اسے سواری ہی پر ادا کر لیا جبکہ دوسرے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کے ارشاد گرامی کو ظاہر پر محمول کیا کہ اگر تعمیل حکم میں نماز دیر سے بھی ادا ہوئی تو ہم گناہ گار نہیں ہوں گے۔ چونکہ فریقین کی نیت درست تھی، اس لیے کوئی بھی قابل ملامت نہ ٹھہرا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ولید بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی سے حضرت شرجیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کے سواری پر نماز پڑھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب نماز کے قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا حکم ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے۔ حضرت ولید بن مسلم اس موقف کی تائید میں نبی ﷺ کا درج ذیل ارشاد پیش کیا کرتے تھے: "تم میں سے کوئی بھی نماز عصر بنو قریظہ کے علاوہ کہیں نہ پڑھے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ جب نبی کریم ﷺ غزوہ خندق سے فارغ ہوئے (ابوسفیان لوٹا) تو ہم سے آپ نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ ؓ نے کہا کہ ہم بنوقریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت ﷺ نے فوراً ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔ یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔ معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور ﷺ نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری ؒ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد ؒ کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک ؒ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔ ولید نے امام اوزاعی ؒ کے مذہب پر حدیث: لا یصلین أحد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت ﷺ نے نماز قضا ہو جانے کی ان کے لیے پروا نہ کی۔ جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری ؒ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔ بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوںگے (الغرض) فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔ معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn `Umar: When the Prophet (ﷺ) returned from the battle of Al-Ahzab (The confederates), he said to us, "None should offer the 'Asr prayer but at Bani Quraiza." The 'Asr prayer became due for some of them on the way. Some of them decided not to offer the Salat but at Bani Quraiza while others decided to offer the Salat on the spot and said that the intention of the Prophet (ﷺ) was not what the former party had understood. And when that was told to the Prophet (ﷺ) he did not blame anyone of them.