Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: To offer the Eid prayer early)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن بسر صحابی نے(ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور)فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔
968.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا: ’’سب سے پہلے ہم جس کام سے اس دن کا آغاز کرتے ہیں وہ نماز پڑھنا ہے، پھر واپس جا کر قربانی کرنا۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کر لیا ہے، قربانی نہیں ہے۔‘‘ میرے ماموں حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی قربانی کو قبل از نماز ذبح کر دیا ہے اور میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے پہلے کی جگہ پر کر دے ۔۔ یا فرمایا ۔۔ اس کی جگہ ذبح کر دے لیکن تیرے بعد کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس دن کے آغاز میں صرف نماز کی تیاری ہو کسی اور چیز میں مصروف نہیں ہونا چاہیے۔ تیاری کے بعد نماز پڑھنے کے لیے جلدی روانہ ہونا چاہیے۔ یہ اہتمام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز عید کے لیے جلدی کی جائے۔ دوسری مصروفیات کی بنا پر اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ (فتح الباري:589/2) (2) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ نماز عید طلوع آفتاب سے پہلے نہیں پڑھی جا سکتی اور نہ عین طلوع کے وقت اسے پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ کراہت کے اوقات ہیں۔ طلوع آفتاب کے بعد جب نوافل پڑھنے کا وقت ہوتا ہے تو نماز عید کے وقت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ نے اس پر فقہاء کا اجماع نقل کیا ہے۔ (3) نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ زوال آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ’’تمام لوگ کل صبح نماز عید پڑھنے کے لیے عیدگاہ پہنچیں۔‘‘(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1853) اگر اس وقت نماز عید پڑھنے کی گنجائش ہوتی تو آپ اسے اگلے دن تک مؤخر نہ کرتے۔ اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے۔ نماز عید کے متعلق صحابہ و تابعین کا طرز عمل حسب ذیل ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نماز فجر پڑھتے، پھر اسی حالت میں عیدگاہ چلے جاتے۔ حضرت سعید بن مسیب کا بھی یہی طرز عمل تھا۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ اپنے بیٹوں سمیت کپڑے وغیرہ پہن کر تیاری کر کے مسجد کی طرف چلے جاتے، نماز فجر پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے، جب آفتاب طلوع ہو جاتا تو چاشت کے دو نفل پڑھ کر عیدگاہ چلے جاتے۔ حضرت عروہ بن زبیر دن چڑھے عیدگاہ جاتے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی عید پڑھنے کے لیے اپنے گھر سے دن چڑھے روانہ ہوتے تھے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ جب سورج خوب روشن ہو جائے تو عیدگاہ جانا چاہیے، البتہ عیدالاضحیٰ اس سے کچھ وقت پہلے پڑھ لی جائے۔ (عمدة القاري:182/5) نماز عید کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور نماز عیدالاضحیٰ اس وقت پڑھتے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جاتا۔ (التلخیص الحبیر:172/2، رقم:685) لیکن اس کی سند میں معلیٰ بن ہلال نامی راوی کذاب ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔ (تمام المنة، ص:347) (4) ان روایات و آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عید پڑھنے کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے اور وہ چاشت کا وقت ہے اور چاشت کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے پر ہو جاتا ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر درست نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس تاخیر کا انکار کرتے تھے۔ عیدالاضحیٰ کے دن چونکہ قربانی کرنی ہوتی ہے، اس لیے اسے کچھ وقت پہلے پڑھنے میں چنداں حرج نہیں۔ آج کل چونکہ گھڑیوں کا دور ہے، اس لیے ہمیں دور حاضر کے مطابق گھڑیوں کا حساب لگانا ہو گا۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صبح کی اذان پانچ بجے ہو تو ساڑھے چھ بجے سورج طلوع ہو گا۔ چاشت کا وقت طلوع آفتاب کے تقریبا نصف گھنٹے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ضرورت کے پیش نظر اس میں چند منٹ تک مزید تاخیر کی جا سکتی ہے، اس لیے حضرت عبداللہ بن بسر ؓ کی تصریحات کے مطابق نماز عید کا وقت چاشت کے وقت ہوتا ہے، اس لیے جہاں پانچ بجے اذان فجر ہو گی وہاں نماز عید کا وقت سات، ساڑھے سات بجے شروع ہو جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی تیاری پہلے سے کر رکھیں۔ اگر طلوع آفتاب کے بعد تیاری کا آغاز کیا تو نماز عید کے لیے وقت فضیلت نہیں مل سکے گا، البتہ جواز کا وقت زوال آفتاب تک ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
954
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
968
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
968
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
968
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند کے ساتھ ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ جب لوگوں کے ہمراہ نماز عید پڑھنے لگے تو امام نے نماز عید پڑھانے میں دیر کر دی۔ آپ نے اس تاخیر کا شدت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ہم تو عہد نبوی میں اس وقت نماز عید سے فارغ ہو جاتے تھے۔ اس وقت چاشت کا وقت تھا۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1185) طبرانی میں ہے: یہ اشراق کا وقت تھا۔ (عمدۃ القاری:5/181)
اور عبداللہ بن بسر صحابی نے (ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا: ’’سب سے پہلے ہم جس کام سے اس دن کا آغاز کرتے ہیں وہ نماز پڑھنا ہے، پھر واپس جا کر قربانی کرنا۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کر لیا ہے، قربانی نہیں ہے۔‘‘ میرے ماموں حضرت ابوبردہ بن نیار کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی قربانی کو قبل از نماز ذبح کر دیا ہے اور میرے پاس بکری کا ایک سالہ بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے پہلے کی جگہ پر کر دے ۔۔ یا فرمایا ۔۔ اس کی جگہ ذبح کر دے لیکن تیرے بعد کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس دن کے آغاز میں صرف نماز کی تیاری ہو کسی اور چیز میں مصروف نہیں ہونا چاہیے۔ تیاری کے بعد نماز پڑھنے کے لیے جلدی روانہ ہونا چاہیے۔ یہ اہتمام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز عید کے لیے جلدی کی جائے۔ دوسری مصروفیات کی بنا پر اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ (فتح الباري:589/2) (2) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ نماز عید طلوع آفتاب سے پہلے نہیں پڑھی جا سکتی اور نہ عین طلوع کے وقت اسے پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ کراہت کے اوقات ہیں۔ طلوع آفتاب کے بعد جب نوافل پڑھنے کا وقت ہوتا ہے تو نماز عید کے وقت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ نے اس پر فقہاء کا اجماع نقل کیا ہے۔ (3) نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ زوال آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ’’تمام لوگ کل صبح نماز عید پڑھنے کے لیے عیدگاہ پہنچیں۔‘‘(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1853) اگر اس وقت نماز عید پڑھنے کی گنجائش ہوتی تو آپ اسے اگلے دن تک مؤخر نہ کرتے۔ اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال آفتاب ہے۔ نماز عید کے متعلق صحابہ و تابعین کا طرز عمل حسب ذیل ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نماز فجر پڑھتے، پھر اسی حالت میں عیدگاہ چلے جاتے۔ حضرت سعید بن مسیب کا بھی یہی طرز عمل تھا۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ اپنے بیٹوں سمیت کپڑے وغیرہ پہن کر تیاری کر کے مسجد کی طرف چلے جاتے، نماز فجر پڑھ کر وہیں بیٹھے رہتے، جب آفتاب طلوع ہو جاتا تو چاشت کے دو نفل پڑھ کر عیدگاہ چلے جاتے۔ حضرت عروہ بن زبیر دن چڑھے عیدگاہ جاتے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی عید پڑھنے کے لیے اپنے گھر سے دن چڑھے روانہ ہوتے تھے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ جب سورج خوب روشن ہو جائے تو عیدگاہ جانا چاہیے، البتہ عیدالاضحیٰ اس سے کچھ وقت پہلے پڑھ لی جائے۔ (عمدة القاري:182/5) نماز عید کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور نماز عیدالاضحیٰ اس وقت پڑھتے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جاتا۔ (التلخیص الحبیر:172/2، رقم:685) لیکن اس کی سند میں معلیٰ بن ہلال نامی راوی کذاب ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔ (تمام المنة، ص:347) (4) ان روایات و آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عید پڑھنے کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے اور وہ چاشت کا وقت ہے اور چاشت کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے پر ہو جاتا ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر درست نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس تاخیر کا انکار کرتے تھے۔ عیدالاضحیٰ کے دن چونکہ قربانی کرنی ہوتی ہے، اس لیے اسے کچھ وقت پہلے پڑھنے میں چنداں حرج نہیں۔ آج کل چونکہ گھڑیوں کا دور ہے، اس لیے ہمیں دور حاضر کے مطابق گھڑیوں کا حساب لگانا ہو گا۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صبح کی اذان پانچ بجے ہو تو ساڑھے چھ بجے سورج طلوع ہو گا۔ چاشت کا وقت طلوع آفتاب کے تقریبا نصف گھنٹے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ضرورت کے پیش نظر اس میں چند منٹ تک مزید تاخیر کی جا سکتی ہے، اس لیے حضرت عبداللہ بن بسر ؓ کی تصریحات کے مطابق نماز عید کا وقت چاشت کے وقت ہوتا ہے، اس لیے جہاں پانچ بجے اذان فجر ہو گی وہاں نماز عید کا وقت سات، ساڑھے سات بجے شروع ہو جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی تیاری پہلے سے کر رکھیں۔ اگر طلوع آفتاب کے بعد تیاری کا آغاز کیا تو نماز عید کے لیے وقت فضیلت نہیں مل سکے گا، البتہ جواز کا وقت زوال آفتاب تک ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن بسر صحابی نے (ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب ؓ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر (خطبہ کے بعد) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہوگا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعا نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لویا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔ اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔ یہ استنباط حضرت امام بخاری ؒ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔ (رحمه اللہ) اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔ یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔ حضرت علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں: الجذعة من الضأن ماله سنة تامة ھذا ھو الأشھر عن أھل اللغة وجمهور أھل العلم من غیر ھم۔ یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔ اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔ بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔ دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔ تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔ علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے۔ اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ:4 ص:400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔ قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے (جذعة من المعز ذات سنة)یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': The Prophet (ﷺ) delivered the Khutba on the day of Nahr ('Id-ul-Adha) and said, "The first thing we should do on this day of ours is to pray and then return and slaughter (our sacrifices). So anyone who does so he acted according to our Sunna; and whoever slaughtered before the prayer then it was just meat that he offered to his family and would not be considered as a sacrifice in any way. My Uncle Abu Burda bin Niyyar got up and said, "O, Allah's Apostle (ﷺ) ! I slaughtered the sacrifice before the prayer but I have a young she-goat which is better than an older sheep." The Prophet (ﷺ) said, "Slaughter it in lieu of the first and such a goat will not be considered as a sacrifice for anybody else after you."